کیا عبادات کا جاہلی تصور موجود ہے؟

انسان خدا کو جنگلوں اور پہاڑوں میں یا عزلت کے گوشوں میں نہیں پاسکتا۔ خدااسے انسانوں کے درمیان، دینوی زندگی کے ہنگامۂ کارزار میں ملے گا اور اس قدر قریب ملے گا کہ گویا وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔جس کے سامنے حرام کے فائدے، ظلم کے مواقع اور بدکاری کے راستے قدم قدم پر آئے اور ہر قدم پر وہ خدا سے ڈر کر ان سے بچتا ہوا چلا۔ اسے خدا کی یافت ہوگئی۔ ہر قدم پر وہ اپنے خداکو پاتا تھا؟ جس نے گھر میں تفریح کے لمحوں میں اور کاروبار کے ہنگاموں میں ہر کام اس احساس کے ساتھ کیا کہ خدا مجھ سے دور نہیں ہے، اس نے خدا کو ہر لمحے اپنے سے قریب اور بہت قریب پایا، جس نے سیاست، حکومت، صلح وجنگ، مالیات اور صنعت و تجارت جیسے ایمان کی سخت آزمایش کرنے والے کام کیے اور یہاں کامیابی کے شیطانی ذرائع سے بچ کر خدا کے مقرر کیے ہوئے حدود کا پابند رہا اس سے بڑھ کر مضبوط اور سچا ایمان اور کس کا ہوسکتاہے؟ اس سے زیادہ خدا کی معرفت اور کسے حاصل ہوسکتی ہے ؟اگر وہ خدا کا ولی اور مقرب بندہ نہ ہوگا تو اور کون ہوگا؟
اسلامی نقطئہ نظر سے انسانی کی روحانی قوتوں کی نشونما کا راستہ یہی ہے ۔روحانی ارتقا اس کا نام نہیں ہے کہ آپ پہلوان کی طرح ورزشیں کر کے اپنی قوت ارادی (will power) کو بڑھالیں اور اس کے زور سے کشف و کرامت کے شعبدے دکھانے لگیں ۔بلکہ روحانی ارتقا اس کا نام ہے کہ آپ اپنے نفس کی خواہشات پر قابو پائیں، اپنے ذہن اور اپنے جسم کی تمام طاقتوں سے صحیح کام لیں ،اپنے اخلاق میں خدا کے اخلاق سے قریب تر ہونے کی کوشش کریں۔ دینوی زندگی میں جہاں قدم قدم پر آزمائش کے موقع پیش آتے ہیں ،اگر آپ حیوانی اور شیطانی طریق کار سے بچتے ہوئے چلیں اور پورے شعوراور صحیح تمیز کے ساتھ اس طریقے پر ثابت قدم رہیں جو انسان کے شایان شان ہے، تو آپ کی انسانیت یوماًفیوماًترقی کرتی چلی جائے گی اور آپ روز بروز خدا سے قریب تر ہوتے جائیں گے ۔اس کے سوا روحانی ترقی اور کسی چیز کا نام نہیں ۔
اکثر لوگ ’’روحانی ترقی‘‘ کا لفظ بولتے ہیں، مگر خود نہیں جانتے کہ ’’روحانیت ‘‘ آخر ہے کیا چیز ہے۔ اسی لیے وہ تمام عمر ایک مبہم چیز کی تلاش اور سعی و حصول میں لگے رہتے ہیں اور ساری تگ ودو کے بعد بھی کچھ نہیں جانتے کہ کہاں پہنچنا تھا اور کہاں پہنچے۔ حالانکہ اگر اسی لفظ’’روحانیت ‘‘پر غور کرلیں توبات بالکل واضح ہوجائے کہ اس لفظ روحانیت میں روح سے مراد انسانی روح ہے نہ کہ کوئی اور روح۔ پس روحانیت انسانیت ہی کا دوسرا نام ہوا۔ انسان اپنی حیوانی خواہشات کی بندگی سے نکل کر کمال انسانیت کی طرف جتنی زیادہ پیش قدمی کرے گا اور اخلاق واوصاف انسانی سے آراستہ ہو کر رضائے الٰہی کے بلند ترین نصب العین تک پہنچنے کی جتنی کامیاب سعی کرے گا،اسی قدر روحانی ترقی اسے حاصل ہوگی۔
عبادات میں بھی لوگوں نے مختلف نقطہ نظر کے ساتھ اپنے اپنے نظریات شامل کیے ہیں…ان نظریات کا جائزہ لیتے ہوئے مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں:
’’اسلام میں عبادات کا مفہوم محض پوجا کا نہیں ہے، بلکہ بندگی (prayer) کا بھی ہے۔ عبادات کو محض پوجا کے معنی میں لینا دراصل جاہلیت کا تصور ہے۔ جاہل لوگ اپنے معبودوں کو انسانوں پر قیاس کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح بڑے آدمی، سردار یا بادشاہ، خوشامد سے خوش ہوتے ہیں، نذرانے پیش کرنے سے مہربان ہوجاتے ہیں، ذلت اور عاجزی کے ساتھ ہاتھ جوڑنے سے پسیج جاتے ہیں اور ان سے یوں ہی کام نکالا جاسکتا ہے، اسی طرح ان کا معبود بھی انسان سے خوشامد، نذرونیاز اور اظہارِ عاجزی کا طالب ہے۔ انہی تدبیروں سے اسے اپنے حال پر مہربان کیا جا سکتا ہے اور اسے خوش کر کے کام نکالا جا سکتا ہے۔ اس تصور کی بنا پر جاہلی مذاہب چند مخصوص اوقات میں مخصوص مراسم ادا کرنے کو عبادت کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
اسلام میں عبادات کا اصلی جاننے کے لیے مولانا مودودیؒ کی شاہکار کتاب ”اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر‘ملاحظہ کیجیے۔ کتاب پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کیجیے
انسان خدا کو جنگلوں اور پہاڑوں میں یا عزلت کے گوشوں میں نہیں پاسکتا۔ خدااسے انسانوں کے درمیان، دینوی زندگی کے ہنگامۂ کارزار میں ملے گا اور اس قدر قریب ملے گا کہ گویا وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔جس کے سامنے حرام کے فائدے، ظلم کے مواقع اور بدکاری کے راستے قدم قدم پر آئے اور ہر قدم پر وہ خدا سے ڈر کر ان سے بچتا ہوا چلا۔ اسے خدا کی یافت ہوگئی۔ ہر قدم پر وہ اپنے خداکو پاتا تھا؟ جس نے گھر میں تفریح کے لمحوں میں اور کاروبار کے ہنگاموں میں ہر کام اس احساس کے ساتھ کیا کہ خدا مجھ سے دور نہیں ہے، اس نے خدا کو ہر لمحے اپنے سے قریب اور بہت قریب پایا، جس نے سیاست، حکومت، صلح وجنگ، مالیات اور صنعت و تجارت جیسے ایمان کی سخت آزمایش کرنے والے کام کیے اور یہاں کامیابی کے شیطانی ذرائع سے بچ کر خدا کے مقرر کیے ہوئے حدود کا پابند رہا اس سے بڑھ کر مضبوط اور سچا ایمان اور کس کا ہوسکتاہے؟ اس سے زیادہ خدا کی معرفت اور کسے حاصل ہوسکتی ہے ؟اگر وہ خدا کا ولی اور مقرب بندہ نہ ہوگا تو اور کون ہوگا؟
اسلامی نقطئہ نظر سے انسانی کی روحانی قوتوں کی نشونما کا راستہ یہی ہے ۔روحانی ارتقا اس کا نام نہیں ہے کہ آپ پہلوان کی طرح ورزشیں کر کے اپنی قوت ارادی (will power) کو بڑھالیں اور اس کے زور سے کشف و کرامت کے شعبدے دکھانے لگیں ۔بلکہ روحانی ارتقا اس کا نام ہے کہ آپ اپنے نفس کی خواہشات پر قابو پائیں، اپنے ذہن اور اپنے جسم کی تمام طاقتوں سے صحیح کام لیں ،اپنے اخلاق میں خدا کے اخلاق سے قریب تر ہونے کی کوشش کریں۔ دینوی زندگی میں جہاں قدم قدم پر آزمائش کے موقع پیش آتے ہیں ،اگر آپ حیوانی اور شیطانی طریق کار سے بچتے ہوئے چلیں اور پورے شعوراور صحیح تمیز کے ساتھ اس طریقے پر ثابت قدم رہیں جو انسان کے شایان شان ہے، تو آپ کی انسانیت یوماًفیوماًترقی کرتی چلی جائے گی اور آپ روز بروز خدا سے قریب تر ہوتے جائیں گے ۔اس کے سوا روحانی ترقی اور کسی چیز کا نام نہیں ۔
اکثر لوگ ’’روحانی ترقی‘‘ کا لفظ بولتے ہیں، مگر خود نہیں جانتے کہ ’’روحانیت ‘‘ آخر ہے کیا چیز ہے۔ اسی لیے وہ تمام عمر ایک مبہم چیز کی تلاش اور سعی و حصول میں لگے رہتے ہیں اور ساری تگ ودو کے بعد بھی کچھ نہیں جانتے کہ کہاں پہنچنا تھا اور کہاں پہنچے۔ حالانکہ اگر اسی لفظ’’روحانیت ‘‘پر غور کرلیں توبات بالکل واضح ہوجائے کہ اس لفظ روحانیت میں روح سے مراد انسانی روح ہے نہ کہ کوئی اور روح۔ پس روحانیت انسانیت ہی کا دوسرا نام ہوا۔ انسان اپنی حیوانی خواہشات کی بندگی سے نکل کر کمال انسانیت کی طرف جتنی زیادہ پیش قدمی کرے گا اور اخلاق واوصاف انسانی سے آراستہ ہو کر رضائے الٰہی کے بلند ترین نصب العین تک پہنچنے کی جتنی کامیاب سعی کرے گا،اسی قدر روحانی ترقی اسے حاصل ہوگی۔

اسلام میں عبادات کا اصلی جاننے کے لیے مولانا مودودیؒ کی شاہکار کتاب ”اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر‘ملاحظہ کیجیے۔ کتاب پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کیجیے