ایک عام تاثر یہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اسلام عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے کا حق دینے کا روادار نہیں ہے۔لیکن حقیقت یہ نہیں ہے۔حقیقت کیا ہے؟ آئیے سید مودودیؒ سے پوچھتے ہیں، ابوالاعلیٰ مودودیؒ اپنی کتاب ’’تعلیمات ‘‘میں لکھتے ہیں:
جہاں تک عورتوں کی تعلیم کا تعلق ہے یہ اسی قدر ضرور ی ہے جتنی مردوں کی تعلیم۔ کوئی قوم اپنی عورتوں کو جاہل اور پسماندہ رکھ کر دنیا میں آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اس لیے ہمیں عورتوں کی تعلیم کے لیے بھی اسی طرح بہتر انتظام کرنا ہے جیسا کہ مردوں کی تعلیم کے لیے۔ یہاں تک کہ ہمیں ان کی فوجی تربیت کا بھی بندوبست کرنا ہے کیوں کہ ہمارا سابقہ ایسی ظالم قوموں سے ہے جنھیں انسانیت کی کسی حد کو بھی پھاندنے میں تامّل نہیں ہے۔ کل اگر خدانخواستہ کوئی جنگ پیش آجائے تونہ معلوم کیا کیا بر بریت ان سے صادر ہو۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی عورتوں کو مداخلت کے لیے بھی تیار کریں لیکن ہم اوّل وآخر مسلمان ہیں اور جو کچھ کرنا ہے …ان اخلاقی قیود اور تہذیبی حدود کے اندر رہتے ہوئے کرنا ہے جن پر ہم ایمان رکھتے ہیں اور جن کی علم برداری پر ہم مامور ہیں۔
ہمیں اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری تہذیب مغربی تہذیب سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ دونوں میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ مغربی تہذیب عورت کو اس وقت تک کوئی عزت اور کسی قسم کے حقوق نہیں دیتی جب تک کہ وہ ایک مصنوعی مرد بن کر مردوں کی ذمہ داریاں بھی اُٹھانے کے لیے تیار نہ ہوجائے
ہمیں اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری تہذیب مغربی تہذیب سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ دونوں میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ مغربی تہذیب عورت کو اس وقت تک کوئی عزت اور کسی قسم کے حقوق نہیں دیتی جب تک کہ وہ ایک مصنوعی مرد بن کر مردوں کی ذمہ داریاں بھی اُٹھانے کے لیے تیار نہ ہوجائے مگر ہماری تہذیب عورت کو ساری عزتیں اور تمام حقوق اسے عورت رکھ کر ہی دیتی ہے اور تمدن کی اِنہی ذمہ داریوں کا بار اس پر ڈالتی ہے جو فطرت نے اس کے سپرد کی ہیں۔ اس لیے ہمارے ہاں عورتوں کی تعلیم کا انتظام ان کے فطری وظائف وضروریات کے مطابق اور مردوں سے بالکل الگ ہونا چاہیے۔ یہاں اوپر سے لے کرنیچے تک کسی سطح پر بھی مخلوط تعلیم کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا۔
جہاں تک عورتوں کی تعلیم کے سلسلے میں عملی تدابیر واصلا حات کا تعلق ہے توجو بھی اسی طرح سے شامل ہونی چاہییں جیسی کہ مردوں کی تعلیم میں، اس کے علاوہ عورتوں کو زراعتی فارم، کارخانے اور دفاتر چلانے کے بجاے گھر چلانے اور انسان سازی کی ہے۔ ہمارے نظام تعلیم کو ان کے اندرایک ایسی مسلمان قوم وجود میں لانے کی قابلیت پیدا کرنی چاہیے جو دنیا کے سامنے اس فطری نظام زندگی کا عملی مظاہرہ کر سکے جو خود خالقِ کائنات نے بنی نوع انسان کے لیے مقرر فرمایا ہے۔
اسلام میں عورتوں کی تعلیم کا تصور کیا ہے۔جدید تعلیمی نظام سے متعلق اسلام کا نقطہ نظر کے بارے میں جاننے کے لیے مولانا مودودیؒ کی معروف کتاب
اسلام میں عورتوں کی تعلیم کا تصور کیا ہے۔جدید تعلیمی نظام سے متعلق اسلام کا نقطہ نظر کے بارے میں جاننے کے لیے مولانا مودودیؒ کی معروف کتاب ”تعلیمات“ پڑھیے۔
”تعلیمات“ پڑھیے۔ کتاب پڑھنے کے لیے لفظ تعلیمات پر کلک کیجیے
حوالہ: مودودی،ابوالا علیٰ،سید، تعلیمات، باب ہشتم (اسلامی نظام ِتعلیم)، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ص:152