جہاد کے حوالے سے ہمیشہ اسلام کے مخالفین نے طرح طرح کے الزامات لگائے ہیں…قیامِ پاکستان سے پہلے اس حوالے سے باقاعدہ بحث شروع ہوچکی تھی کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا…ان الزامات اور غلط فہمیوں کا جواب مولانا نے اپنی کتاب’’الجہاد فی الاسلام‘‘ کے علاوہ دیگر کئی جگہوں پر بھی دیا ہے، ’’جہاد فی سبیل اللہ ‘‘کے نام سے لکھی گئی تحریر میں مولانامودودیؒ رقم طراز ہیں:
عموماً لفظ ’’جہاد‘‘ کا ترجمہ انگریزی زبان میں (holy war) ’’مقدس جنگ‘‘ کیا جاتا ہے اور اس کی تشریح و تفسیر مد ت ہاے دراز سے کچھ اس انداز میں کی جاتی رہی ہے کہ اب یہ لفظ ’’جوشِ جنون‘‘ کا ہم معنی ہو کر رہ گیا ہے۔ اس کو سنتے ہی آدمی کی آنکھوں میں کچھ اس طرح کا نقشہ پھرنے لگتا ہے کہ مذہبی دیوانوں کا ایک گروہ ننگی تلواریں ہاتھ میں لیے، ڈاڑھیا ں چڑھاے، خونخوار آنکھوں کے ساتھ اللہ اکبر کے نعرے لگاتا ہوا چلا آرہا ہے۔ جہاں کسی کا فرکو دیکھ پا تا ہے پکڑ لیتا ہے اور تلوار اس کی گردن پر رکھ کر کہتا ہے کہ بول لا الہ الااللہ ورنہ ابھی سر تن سے جدا کر دیا جا ئے گا۔ ماہرین نے نے ہماری یہ تصویر بڑی قلمکاریوں کے ساتھ بنائی ہے اور اس کے نیچے مو ٹے حرفوں میں لکھ دیا ہے کہ ؎
بوئے خو ں آتی ہے اس قوم کے افسانوں سے
سوال یہ ہے کہ پرانے الفاظ کو چھوڑ کر یہ نیا لفظ کیوں اختیار کیا گیا ،اس کا جوا ب بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ ’’جنگ ‘‘ کا لفظ قوموں اور سلطنتوں کی ان لڑائیوں کے لیے استعمال ہوتا تھا اور آج تک ہورہا ہے جواشخاص یا جماعتوں کی نفسانی اغراض کے لیے لڑی جاتی ہیں۔ ان لڑائیوں کے محرک ایسے شخصی یا اجتماعی مقاصد ہوتے ہیں جن کے اندر کسی نظریے اور کسی اصول کی حمایت کا شائبہ تک نہیں ہوتا
دراصل اسلام ایک انقلا بی نظریہ و مسلک ہے جو تمام دنیا کے اجتما عی نظم (sanction) کو بدل کر اپنے نظریہ و مسلک کے مطابق اسے تعمیر کرنا چاہتا ہے اور مسلما ن اس بین الاقوامی انقلا بی جماعت (international revolutionary party) کا نام ہے جسے اسلام اپنے مطلوبہ انقلا بی پروگرام کو عمل میں لانے کے لیے منظم کرتا ہے اور جہاد اس مقصد جدوجہد (revolutionary struggle) کا اور انتہا ئی صرفِ طاقت کا نام ہے جو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اسلامی جما عت عمل میں لاتی ہے۔
تمام انقلابی مسلکوں کی طرح اسلام بھی عام مروّج الفاظ کو چھوڑ کر اپنی ایک خا ص اصطلاحی زبان (terminology) اختیار کرتا ہے تاکہ اس کے انقلا بی تصورات عام تصورات سے ممتاز ہوسکیں۔ لفظ جہاد بھی اسی مخصوص اصطلاحی زبان سے تعلق رکھتا ہے۔ اسلام نے حرب اور اسی نوعیت کے دوسرے عربی الفاظ جو جنگ (war) کے مفہوم کو ادا کرتے ہیں قصداً ترک کر دیے اور ان کی جگہ ’’جہاد ‘‘کا لفظ استعمال کیا جو (struggle) کا ہم معنی ہے بلکہ اس سے زیادہ مبالغہ رکھتا ہے۔ انگریزی میں اس کا صحیح مفہوم یوں ادا کیا جاسکتا ہے:
ـ”To exert one’s utmost endeavour in furthering a cause”
اپنی تمام طاقتیں کسی مقصد میں صرف کردینا
سوال یہ ہے کہ پرانے الفاظ کو چھوڑ کر یہ نیا لفظ کیوں اختیار کیا گیا ،اس کا جوا ب بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ ’’جنگ ‘‘ کا لفظ قوموں اور سلطنتوں کی ان لڑائیوں کے لیے استعمال ہوتا تھا اور آج تک ہورہا ہے جواشخاص یا جماعتوں کی نفسانی اغراض کے لیے لڑی جاتی ہیں۔ ان لڑائیوں کے محرک ایسے شخصی یا اجتماعی مقاصد ہوتے ہیں جن کے اندر کسی نظریے اور کسی اصول کی حمایت کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ اسلام کی لڑائی چونکہ اس نوعیت کی نہیں ہے اس لیے وہ سرے سے اس لفظ ہی کو ترک کردیتا ہے۔ اس کے پیش نظر ایک قوم کا مفاد یا دوسری قوم کا نقصان نہیں ہے، وہ اس سے کوئی دل چسپی نہیں رکھتا کہ زمین پر ایک سلطنت کا قبضہ رہے یا دوسری سلطنت کا، اس کی دلچسپی جس سے ہے وہ انسانیت کی فلاح ہے۔ اس فلاح کے لیے وہ اپنا ایک خاص نظریہ اور ایک عملی مسلک رکھتا ہے۔
اس نظریے اور مسلک کے خلاف جہاں جس کی حکومت بھی ہے، اسلام اسے مٹانا چاہتا ہے قطع نظر اس سے کہ وہ کوئی قوم ہو اور کوئی ملک ہو۔ اس کا مدعا اور اپنے نظریے اور مسلک کی حکومت قائم کرنا ہے بلا لحاظ اس کے کہ کو ن اس کا جھنڈالے کے اُٹھتا ہے اور کس کی حکمرانی پر اس کی ضرب پڑتی ہے۔وہ زمین مانگتا ہے …زمین کا ایک حصہ نہیں بلکہ پورہ کر ۂ زمین…اس لیے نہیں کہ ایک قوم یا بہت سی قومو ں کے ہاتھ سے نکل کر زمین کی حکومت کسی خاص قوم کے ہاتھ میں آجائے بلکہ صرف اس لیے کہ انسانیت کی فلاح کا جو نظریہ اور پروگرام اس کے پا س ہے، یا با لفاظِ صحیح تریوں کہیے کہ فلا ح انسانیت کے جس پروگرام کا نام ’’اسلام‘‘ ہے، اس سے تمام نوعِ انسانی متمتع ہو۔ اس غرض کے لیے وہ تمام ان طاقتوں سے کام لینا چاہتا ہے جو انقلاب برپا کرنے کے لیے کارگر ہوسکتی ہیں اور ان سب طاقتوں کے استعمال کا ایک جا مع نام ’’جہاد ‘‘ رکھتا ہے۔ زبان و قلم کے زور سے پرانے ظالمانہ نظام زندگی کو بدل دینا اور نیا عادلانہ نظام مرتب کرنا بھی جہاد ہے اور اس راہ میں مال صَرف کرنا اور جسم سے دوڑ دھوپ کرنا بھی جہاد ہے۔
اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ….یاپھر اسلام کی دعوت میں بھی اتنی طاقت اور جان تھی کہ وہ دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلا۔ اس حوالے سے مولانا نے ایک تفصیلی کتاب’الجہاد فی الاسلام‘ تحریر کی ہے، یہ کتاب جہاد کے موضوع پر ایک غیر معمولی کتاب ہے۔ جسے دنیا بھر میں پذیرائی ملی اور اسلام کے خلاف جو پروپیگنڈا کیا جارہا تھا وہ کافی حد تک رفع ہوا
جہاد سے متعلق عرصہ دراز سے غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں اور پڑھے لکھے لوگ بھی اس پروپیگنڈے کا شکار ہو کر جہاد کو نرا قتل وغارت گری کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے، دراصل جہاد ہے کیا؟ اور اس کے ذریعے اسلام انسانی زندگی میں کیا تبدیلیاں لانا چاہتا ہے، اس سے متعلق مولانا مودودیؒ نے ’’اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات ‘‘کے باب ہشتم میں جہاد فی سبیل اللہ کے حوالے سے اس غلط فہمی کو مضبوط دلائل کے ساتھ رفع کرنے کی کوشش کی ہے۔
حوالہ:ابولاعلیٰ، مودودیؒ،اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات ‘(جہاد فی سبیل اللہ)، باب :ہشتم، ص:208