مولانا مودودی( ۱۹۷۹ ء ۔۱۹۰۳ء) بیسویں صدی کے عظیم اسلامی مفکر ، مفسر ، مورخ ،متکلم، قائد اور مجدد تھے ۔ جنھوں نے دین اسلام کے احیائے نو کے لیے امت میں نئی روح پھونک کر فکر اسلامی کو پر اعتماد ،عمدہ اور مدلل اسلوب میں اجاگر کیا ۔ مغربی فکر وتہذیب سے مرعوبیت کے شکار نئی نسل اسلام کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے وہ اسلام کوفرسودہ اور ازمنہ وسطیٰ کا مذہب سمجھتے تھے اور الحاد کو اپنا قبلہ منتخب کر چکے تھے اس مرعوبیت پر مولانا مودودی نے کاری ضرب لگادی ۔ آپ نے اپنی تحریروں سے نوجوانوںکو حیرت انگیز حد تک بدل کر رکھ دیا ہے۔ مغربی فکر و تہذیب اور الحاد وبغاوت کی قعرِ مذلت اور بحر ظلمات سے نکال کر سراپا اسلام کے شیدائی بنا دیا ہے۔مولانا مودودی نے جس دور میں علمی ، فکری اور تحقیقی کام شروع کیا وہ مغربی فکر و فلسفہ ار اشتراکیت کے غلبہ کا زمانہ تھااور ان ہی گونج ہر طرف سنائی دے رہی تھی۔ علمی و فکری افق پر صرف ان ہی کی پکار سے لوگ مرعوب ہورہے تھے ۔ ان کے بغیر لوگوں کو کوئی اور آواز متاثر نہیں کر رہی تھی ۔یہ مولانا مودودی ہی تھے جنھوں نے اسلام کو فعال ، متحرک اور مدلل بنایا اور اس کے غالب ہونے کا تصور دیا ۔ انھوں نے اسلامی فکر اور اس کے لازوال عقائد ،نظام معیشت و تجارت،نظام معاشرت و خاندان ،نظام تعلیم و تربیت ،نظام سیاست اورملکی و بین الاقوامی قوانین ، تحریک و دعوت اور سماجیات پر نادر کتابیں لکھ کر عصر حاضر میں اسلام کے توانا وجود کو منوایا ۔ انھوں نے نہ صرف مغربی فکر و تہذیب سے مرعوبیت کوختم کرنے میںبھی نہایت اہم رول ادا کیا بلکہ مغربی دانشوروں کے اعتراضات کی تردید بھی کی اور ان کا عقلی و منطقی دلائل سے زبر دست مقابلہ کیا ۔ نیز تورات (عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید) اور عیسائی ویہودی مصنفین کے حوالوں سے عیسائیت اور یہودیت کے فسادات اور تضادات بھی مبرہن کئے ہیں۔
مولانا مودودی ان چند اسلامی مفکرین میں سے ہیں جنھوں نے برطانوی استعمار کے مذموم مقاصد اور مغربی فکر و فلسفہ کا نہ صرف صحیح ادراک کیا بلکہ اس کے تدارک لئے فکری جہاد بھی کیا ۔ ان کی فکر ابتدا ہی سے دفاعی نہیں بلکہ اقدامی نوعیت کی تھی اور ان کے افکار میں مرعوبیت اور معذرت پسندانہ لہجہ کا شائبہ تک بھی نہیں تھا ۔انھوں نے اسلام کو اسی طرح پیش کیا جس طرح ماضی میں امام غزالیؒ ، ابن تیمیہؒ اور شاہ ولی اللہ ؒجیسے مجددین نے پیش کیا ۔ مولانا کو اگر انہی کی صف میں شامل کیا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا ۔مولانا مودودی نے اسلام کا جامع ،مکمل اور واضح تصور پیش کیا اور اپنی شاہکار تحریروں کے ذریعہ فکر اسلامی کے مختلف گوشوں پر قابل فخر کام کیا ۔نیز جدید افکار و نظریات کا علمی اور تحقیقی انداز (Systematic) سے تنقیدی جائیزہ بھی لیا ۔انھوں نے جہاں مغربی فکر و تہذیب کا طلسم توڑا وہیں ان دانشوروں پربھی زبر دست فکری حملہسے تنقیدی جائیزہ بھی لیا ۔انھوں نے جہاں مغربی فکر و تہذیب کا طلسم توڑا وہیں ان دانشوروں پربھی زبر دست فکری حملہ کیا جو اسلام اور اس کی تہذیب کو ماضی کا قصہ پارینہ اور فرسودہ تصور کرتے تھے ۔ مولانا موصوف بیسویں صدی کے ایک ایسے مفکر تھے جنھوں نے اسلام کونہایت پرزور اور مدلل انداز میں دنیائے انسانیت کے لیے متبادل قرار دیا اور اسلام کو زندگی کے تمام شعبوں کے لیے قابل عمل ٹھہرایا ۔انھوں نے ان حا لات میں کا م کیا جب مغربی فکر و تہذب کا رعب لوگوں کے ذہنوں پر چھایا ہوا تھااور مسلمانوں کی کوئی تحریک نہیں تھی ، کوئی نظریہ اور تعلیمی نظام نہیں تھا ، فہم و بصیرت کا زویہ متعین نہیں تھا ،اور جو کچھ تھا وہ بھی زوال پزیر تھی غرض کہ مسلمان ہر معاملے میں یاس وقنوطیت اور روایت پسندی کے بھول بھلیوں کے شکار تھے اور مسلم معاشرہ ہر طرف بے یقینی کی دلدل میں اتر گیا تھا ۔انہی حالات میں مولا نا مودودی نے علمی سفر شروع کیا ۔ ولی نصر لکھتے ہیں کہ
’’اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسلام انسانی زندگی کے لیے مکمل ضابطہ حیات ہے اور قرآن پاک مکمل دستور العمل ہے۔ یہ ہرزمانے کے لیے کامیابی اور فلاح وبہبود کا ضامن ہے جو دنیائے انسانیت کے لیے ہمیشہ قابل تقلید رہے گا۔ سید مودودیؒ نے اس بحث کو مضبوط استدلال سے واضح کیا اور انسانی زندگی کے ہر شعبے کے لیے ایک خاص اسلوب اور نہج میں ضابطہ حیات کے طور پر پیش کیاہے۔ برصغیر میں اسلام ایک مکمل نظام زندگی کے طور پیش کرنے کا سہرا مولانا مودودیؒ کے سر ہی بندھتا ہے۔‘‘ (1) اُنھوں نے اس کی توضیح وتشریح گہرائی اور انتہائی علمی وفکری قوت کے ساتھ مدلل انداز میں کی ہے۔ بقول Malise Ruthven مولانا مودودی کے نظریہ میں’’ اسلام محض چند قوانین کا نام نہیں رہتا بلکہ ایک مکمل سماجی نظام بن جاتا ہے ‘‘مولانامودودیؒ کو اس بات پر یقین محکم تھا کہ اسلام روحانی، معاشرتی، معاشی، سیاسی، خاندانی، اخلاقی مسائل کا ایسا مکمل حل پیش کرتا ہے جس کے بعد ایک انسان کو کسی اور نظریہ یا مذہب کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت نہیںپڑتی ہے ۔اسلام دور حاضر کے مسائل کو حل کرنے کی بھرپور قوت اور صلاحیت رکھتا ہے۔ عالمگیریت کے اس دور میں بھی اسلام اپنی نمائندگی خوب کرتا ہے کیوں کہ یہ مکمل نظام حیات ہے ۔ سید مودودیؒ نے اس پہلو کو بھی اپنی تصانیف میں نمایاں کیا ہے۔ جیوشوا ۔ٹی ۔وائیٹ اور نیلوفر صدیقی(Joshua T White and Neloufer Sidique) لکھتے ہیں :
مذہب کے بارے یہ عوامی بحث میںمولا نا مودودی کا یہ بنیادی کارنامہ ہے کہ اسلام بیک وقت ایک مکمل نظام زندگی ، نظریہ ،تہذیب اور قانون ہے ۔ اس فکر کے وہ علمبردار ہیں۔ان کی بیشتر تعلیمات اسی بنیادی نظریہ کے ارد گرد گھومتی ہیں(2)۔
مولانا نے اسلامی فکرمیں دور حاضر سے ایسی ہم آہنگی پیدا کی کہ اب ہر خاص وعام اس بات پر متفق ہے کہ اسلام عصر حاضر کا دین ہے۔ انہوں نے اس بات کی خوب وضاحت کی کہ اسلام کیسے عصر حاضر سے مطابقت(Relevancy) رکھتا ہے اور اس میں مولانا مودودیؒ پوری طرح کامیاب بھی رہے۔ اس تعلق سے دور جدید کی ایک عظیم داعی مریم جمیلہ لکھتی ہیں کہ ’’میری یہ رائے گہرے مطالعے اور غور و فکر سے بنی ہے کہ جس طرح آپ اپنی گراں قدر کتابوں اور کتابچوں میں اسے پیش فرما رہے ہیں ، وہ اسلام کی صحیح تر ین تعبیر و تشریح ہے ۔ آپ نے اسلام کو وقت کی کسی عارضی و سطحی مصلحت سے مملو نہیں کیا ، نہ کسی اجنبی نظریے یا فلسفے کی اس میں آمیزش ہونے دی ہے ۔آپ نے اسلام کو جس طور سے اپنی تحریروں میں پیش کیا ہے ۔ اس کی روشنی میں میرا تاثر ہے کہ اسلام واحد راہ ہدایت اور اعلیٰ و ارفع اسلوب حیات ہے ۔‘‘۳؎ غرض کہ انھوں نے اسلام کو علم اور دلیل کے ذریعے کردار میں ڈھالا ۔ اسی وجہ سے آج ۷۵ سے زائدزبانوں میں ان کی کتابوں اور تحریروں کو پڑھا ، سمجھا اور ان پر عمل کیا جارہا ہے ۔
مولانا مودودی نے قرآن و حدیث اور اجتہاد میں ترتیب قائم کر کے ان کی اپنی اپنی اہمیت وا فادیت بیان کی نیزمسلمانوں میں فکر اسلامی کے احیاء کی تحریک پیدا کی۔ آج وہ اسی مئوثرنظریہ کی بدولت اہل فکر و دانش میں توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں جن میں رواتی علماء بھی شامل ہیں اور عصری دانشگاہوں کے فارغین بھی ۔ مولانا مودودی کی ایک خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے اسلام کونہ صرف ایک نظام کی شکل میں متشکل کر دیا ہے بلکہ اس کو ایک نظام میں ڈھالنے کے جدید رجحانات کو پیرائیہ اظہاربھی عطا کیا ہے ۔ ولفرڈ کانٹ ول سمتھ (W.C.Smith) کے الفاط میں مولانا مودودی نے اپنے خیالات بڑے تسلسل سے ایک مربوط ومنظم اور پرکشش نظام حیات کی حیثیت سے پیش کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ:
ـــ’’ مولانا مودودی نے بتد ریج اور عرق ریزی سے موثر اسلامی نظریات کے منظم اور باقاعدہ نظام کی موثرتشکیل کی ہے جو ان کے مقام و مرتبے اور جدوجہد کا اہم حصہ ہے ۔مولانا مودودی ؒعصر حاضر میں اسلام کے متعلق بڑے منظم اور بااصول انداز میں سوچنے والے مفکر ثابت ہوں گے ‘‘۔(4)
مولانا مودودی کا طرز استدلال شاندار ، مضبوط اور پرکشش تھا ۔ان کے طرز استدلال میں کہیں ابہام اور اُلجھاو نہیں ہے ۔منطقی استدلال،قطعیت اور وضاحت ان کی تحریروں میں غالب ہے ۔ انھوں نے وہی طرز استدا ل اختیار کیا جو ان سے پہلے سرسید احمد خانؒ ، علامہ شبلی نعمانیؒ اورمولانا ابو الکلام آزاد ؒنے اپنی متنوع خوبیوں کے ساتھ اختیار کر رکھا تھالیکن مولانا مودودی نے اپنے طرز استد لال کو اور بھی توانا کیا تھا ، اعظم رضوی نے بجا کہا کہ ’’شبلی کے منطقیانہ رنگ نے مناظرہ ،ہیجان اور جوش و خروش کی شکل اختیار کر لی ہے ۔ مولانا ابوکلام آزاد کے ہاں یہ فلسفیانہ صورت میں ملتی ہے ، جب کہ سرسید کے ہاں کرختگی ہے ، ان کا منطقی استدلال انتہائی سخت ہوتا ہے ۔مولانا مودودی کے ہاںمنطق ، ادق مسائل کا سلسلہ جواب در جواب نہیں، بلکہ عام فہم اور سادہ ہے ، اس لیے ان کی تحریروں میں ہیجانی اور بحرانی کیفیت نہیں ۔‘‘۵؎ مولانا مودودی نے مذکورہ عبقریات کے طرز استدلال کو نہ صرف مزید نکھارا بلکہ توانا بھی کیا ہے ۔اس دبستان کی گویایہ آخری کڑی تھی ۔مولانا مودودی اپنے مضبوط طرز استدل کی وجہ سے عوام و خواص میں کافی مقبول ہیں ۔اس تعلق سے اسکول آف اورنٹل لنگویجز اور امیریکن اسٹیڈیز ان برٹش کے لکچرر اور جرمن اسکالر پٹر ہاٹنگ جنھوں نے مولانا مودودی کی زندگی اور ان کی فکرپر کم وبیش پندرہ سال تحقیق کی ہے، ان کی یہ بات کافی اہمیت کی حامل ہے کہ :
’’ـمولانا مودودی نے بیسویں صدی میں دوررس اثرات مرتب کئے ۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ اسلام اپنی خالص ترین اور انتہائی توانا شکل میں دور جدید کی زندگی پر غیر معمولی حد تک اثر انداز ہوا اورمعاصر زندگی کو متاثر کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے ۔‘‘(6)
مولانا مودودی نے علمی و فکری ، سیاسی ، تعلیمی ، معاشی ، معاشرتی ، قانونی اور سماجی دائروں میں نہایت وسیع اثرات مرتب کیے ۔ انھوں نے اسلام کو ہر دور کے لئے رہنمائی کا ذریعہ ثابت کیا اور دکھایا کہ کس طرح اسلام پر عمل پیرا ہوکر دین و دنیا کی فلاح حاصل کی جاسکے ۔انھوں نے مدلل انداز میں بتایا کہ اسلام ایک ایسی قوت و طاقت اور نظریہ ہے جو دنیا کی قیادت و سیادت اور رہنمائی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ انھوں نے اسلام کو جامع نظام حیات اور اقدار کے طور پر پیش کر کے بتایا کہ عصر حاضرمیں اسلامیات کی صورت گری ممکن ہے اور جس کے لیے انھوں نے مربوط خاکہ بھی پیش کیا ۔یہ مربوط خاکہ ایک طرف نظریہ پر مشتمل ہے ار دوسری جانب زندگی کے ہر شعبہ کا احاطہ کرتا ہے۔ ایف۔ سی۔ آر۔ رابن سن (F.C.R.Robinson)لکھتے ہیں کہ :
مولانا مودودی نے ان لوگوں پر تنقید بھی کی ہے جو اسلامی ریاست اور اس کے قیام کو ایک خیالی پلائو ((Utopian conceptقرار دیتے تھے ۔ انھوں نے اپنی تحریروں سے اسلام کو زندہ و جاوید مذہب قرار دیا ا ور بتایا کہ دور جدید کے نت نئے نظریات اور مسائل کو اسلام ہی حل کر سکتا ہے ۔(7)
استاد فتحی عثمان لکھتے ہیں :
’’معاصر مسلم دنیا کے تجزیے ،اسلام کے عالمگیر تعلیمات کی وضاحت اور موجودہ حالات سے ان کی مطابقت اور دوسرے معاصر افکار و نظریات کا تقابلی مطالعہ جیسے اہم موضوعات میں ،مولانا مودودی نے بے پناہ ذہانت و صلاحیت اور وسیع علم کا مظاہرہ کیا۔‘‘(8)
مولانا مودودی بے شمار لوگوں کے لیے اسلام مکمل نظام زندگی کی حیثیت سے اختیار کرنے کاذریعہ ثابت ہوئے ۔ انھوں نے کم و بیش ہر موضوع پر قلم اٹھایا اور ایسی جاندار تحریریں چھوڑیںکہ نہ صرف عام لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے استفادہ کیابلکہ خواص بھی ان کی فکر انگیزتحریروںسے مستفید ہوئے اور ہورہے ہیں۔رائے جکسن(Roy Jackson ( کے بقول آج مولانا مودودی کی فکر اور ان کی تحریروں کو نہ صرف عالم اسلام میں بلکہ مغربی دنیا میں بھی مستقل طورپڑھاجارہاہے اور اسلامی احیاء کے جدید عنوانات پر مسلسل ان کی تحریروں سے استفادہ کیا جارہا ہے ۔۹؎ اسی بات پر ہوگ گارڑدارد ( Hugh Goddard) کو بھی اتفاق ہے ،وہ لکھتے ہیں کہ
’’یعنی مولانا مودودی بیسویں صدی میں احیائے اسلام کے ایک عظیم قائد اور رہنماء تھے ۔انھوں نے اپنی فکر اور تحریروں سے پورے عالم اسلام پر حیرت انگیز اثر الا۔ ‘‘(10)
ا س سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ مغربی اہل علم کتنی گہرائی اور گیرائی سے فکر مودودی کا مطالعہ کررہے ہیںاور ساتھ ہی یہ بھی تجزیہ کرتے ہیںکہ اس فکر سے اب تک مشرق و مغرب پرکتنے اثرات مرتب ہوچکے ہیںاور یہ بھی کہ آنے والے زمانے میں اس فکر سے کیا اثرات پڑنے والے ہیں اور کیا نتائج نکلنے والے ہیں؟ مغربی فکر و تہذیب سے متاثر نئی نسل مختلف ذہنی اشکالات اور تہذیب حاضر کے نت نئے مسائل اور الجھنوںمیں گھری ہوئی تھی اس اہم طبقہ کو مولانا مودودی نے بحسن و خوبی Adressکیا ہے ۔مولانا مودودی کی شخصیت ہی نہیں بلکہ ان کا لٹریچر بھی تاریخ ساز ہے ۔یہ لٹریچر ان کی حیات میں ہی دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو کرہر جگہ پہنچ گیا جس سے نمایاں فکری تبدیلیا ں رونماں ہوئیں ۔ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے معبودان باطل اور دین بے زاری سے منہ موڑ کر معبود برحق اور حق پرستی کی راہ اختیا کی۔ ان لوگوں کے دل ودماغ اس جاوداں اور جامع لٹریچر سے نہ صرف مطمئن ہوگئے بلکہ وہ اظہار دین اور اس کی سربلندی کے لئے متحرک بھی ہوگئے۔مولانا مودودی کے لٹریچر نے جدید تعلیم یافتہ طبقہ اور تہذیب حاضر کے غلام الحاد پرستی اور مغربی فکر و تہذیب کو رہنمائی کا واحد ذریعہ سمجھتے تھے اور اسی فکر و تہذیب میں ان کی زندگیاں ڈھل چکی تھیں۔ مولانا مودودی کے لٹریچر نے انہیں اس الحادی فکر و تہذیب کا باغی بنایا اوروہ اسلامی فکر و تہذیب کے علمبردار بھی بن گئے۔ اس ہمہ جہت لٹریچر سے جو نمایاں اثرات پڑے وہ مصباح الحق فاروقی کی زبان میں یہ ہیں :
معاندین اور دین دشمنوں نے مولانا مودودی کی فکرکو ایک طرف منظم اور مدلل قرار دیا تو دوسری طرف اس فکر کو اپنے لیے خطرہ قرار دیا ۔اس کی ایک مثال یہ ہے کہ قیام پاکستان کے دو برس بعد روس کے ایک صحافی پاکستان کے مطالعاتی دورے پر آئے ہوئے تھے ۔ وہاں انھوں نے مشہور سوشلسٹ شاعر فیض احمد فیض سے انٹریو کیا جب گفتگو سیاسی جماعتوں اور شخصیتوں کے بارے میں ہونے لگی تو صحافی نے سوال کیا کہ یہ مولانا مودودی کون ہیں ؟ یہ سوال سنتے ہی فیض احمد فیض کا چہرہ یکدم سرخ ہوگیا اور ہلکے سے انداز میں دانت پیس کر رک رک کر بولے : He is real menace for us” ” یعنی یہ شخص ہمارے لیے حقیقی خطرہ ہے ۔۱۱؎ مغربی مفکرین کو بھی اس بات پر زبردست فکرلاحق ہے کہ مودودی کی فکر دنیا میں پھل رہی ہے اور خاموشی سے خود مختار اسلامی ریاستوں(Independent Islamic States (کے لیے راہیں ہموار کر رہی ہیں ،اسی لیے وہ اس فکر کو دنیا کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں ، اسلامو فوبیا ، دہشت گردی ، انتہا پسندی اور فساد سے عالم انسانیت کو اندہیرے میں دھکیل رہے ہیں ۔مولانا مودودی نے فکری دنیا پر عالمگیر اثرات مرتب کئے ہیں ،اس معاملے میں بیسویں صدی میں ان کا کوئی ثانی نظر نہیں آرہا ہے ۔انھوں نے اسلامی احیاء کو نہ صرف مدلل کیا بلکہ اس کو منظم عملی شکل بھی دے دی ۔عالم اسلام میں دورسری تحریکیںبھی فکر ِ مودودی سے متحرک ہوئیں ۔جان ۔ای۔کیمپ اور گارڑن ملٹن(Juan.E.Camp and J.Gorden.Melton)لکھتے ہیں کہ
’’یعنی مولانا مودودی اپنے دور میں پوری طرح سے استعماریت اور قومیت پر مبنی سیاست کے خلاف متحرک تھے ۔ انھوں نے جدید احیائے کے نظریہ کو ایک ایسی شکل دی جو آج بھی اسلامی تحریکو ں کو حوصلہ اور تحریک دے رہی ہے ۔‘‘(12)
اس گفتگوسے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ مغربی اہل علم کتنی گہرائی اور گیرائی سے فکر مودودی کا مطالعہ کررہے ہیںاور ساتھ ہی یہ بھی تجزیہ کرتے ہیںکہ اس فکر سے اب تک مشرق و مغرب پرکتنے اثرات مرتب ہوچکے ہیںاور یہ بھی کہ آنے والے زمانے میں اس فکر سے کیا اثرات پڑنے والے ہیں اور کیا نتائج نکلنے والے ہیں؟
مصادر و مراجع :
(1) The New Cambridge History of Islam ,Edited by :Francis Robinson ,(Cambrige University Press New York ,2010) ,vol:5 p:565
(2) Joshua T White and Neloufer Sidique,Mawlana Mowdudi,Islam and Politics, Edited by John L.Esposito and Emad El-Din Shahin,(Oxford University Press,2010)p:145
۳؎ آباد شاہ پوری ،مریم جمیلہ ، اسلام ایک نظریہ۔ ایک تحریک ،( مرکزی مکتبہ اسلامی پبلیشرز نئی دہلی ، ۲۰۱۳،) ص: ۱۴
(4) Wilfrid Cantwell Smith, Islam In Modern History , (New York,The New Amarican Library,1957),p:236
۵؎ اعظم رضوی ، سیا رہ ، مارچ ۱۹۸۳ء ،ص: ۱۲۳
(6) Jon Peter Harting,Political Islam :A Movement in Motion , The Economist June, 2014
(7) The Encyclopedia of islam Edited by : C.E Bosworth , E.V.Donzel , W.P.Heinrichs and Ch.Pellat, (Leiden E.J.Brill ,1991),p: 873
(8) Fathi Ousman, Mawdudis contribution to the Development of Modern Islamic Thinking in the Arab Speaking People ,The Muslim World ,Jul oct,2003,p:468 (9) Roy Jackson, Fifty Key Figures in Islam(London And New York,Routledge, 2006) ,p:19
(10) Encyclopedia of Islamic Civilization and Religion ,edited by Ian Richard Melton (Routledge London and New york ,2010),p:399
۱۱؎ لالہ صحرائی ، جوئبار نرم رو،فرائڈے اسپیشل، ستمبر ۲۰۱۳ء
(12) The Encyclopedia of Islam,adited by Juan.E.Camp and J.Gorden.Melton,(Facts on File ,2009),p:463
٭…٭