علمی، ادبی اور صحافتی دُنیا پرفکر مودودیؒ کے اثرات

احمد حاطب صدیقی
(صدر دائرہ علم و ادب پاکستان)

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اعلاے کلمة الحق کی جس تحریک کو برپا کرنے کے لیے جماعتِ اسلامی قائم کی، اُس کی طرف لوگوں کو راغب کرنے میں ان کی علمی، ادبی اورصحافتی نگارشات نے بنیادی اور اوّلین کرداراداکیا۔خود جماعتِ اسلامی کا قیام ماہنامہ ”ترجمان القرآن“ کا مرہونِ منّت ہے۔ علاوہ ازیں تین جلدوں میں شائع ہونے والی کتاب ”مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش“کی جلد سوم کے متعلق کتاب کے مصنّف مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کااپنا قول ہے :
”یہ کتاب جماعتِ اسلامی کا سنگِ بنیاد ہے“۔
تحریکِ جماعتِ اسلامی کی طرف راغب ہونے والوں کی بھاری اکثریت کا یہ اعتراف ریکارڈ پر موجود ہے کہ مولانا مودودیؒ کے لٹریچر کی کسی نہ کسی کتاب کا مطالعہ ہی اُنھیں جماعتِ اسلامی کی برپا کی ہوئی انقلابی تحریک کی طرف کھینچ لایا۔علمی، ادبی اور صحافتی دُنیا پرمولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے ذخیرہ تصانیف نے جو اثرات مرتب کیے ہیں، اُنھیں ہرگز ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اپنی طاقتور تحریر کے ذریعے سے اسلام کی جامعیت، کاملیت اور رہتی دنیا تک کے مسائل کا حل فراہم کرنے کی صلاحیت کا لوہا عصر حاضر کی علمی اور نظریاتی دنیا سے منوا لینے کا جو کارنامہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے سرانجام دیا ہے، اُس کے سب ہی معترف ہیں۔
علمی دُنیا پر اثرات:
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی معرکہ آرا تفسیر”تفہیم القرآن“نے بلامبالغہ لاکھوں زندگیوں کو متاثرکیا۔ خود اہلِ علم بھی اِس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ مولانا کے مخصوص علمی اور ادبی طرزِ بیان پر اُردو کے نامور ادیب و نقاد پروفیسر رشید احمد صدیقی نے جو بات کہی وہ ان تحریروں کے اثرات کے متعلق سوفیصد صادق ہے۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں کہ:
”ان کی تحریروں کو پڑھ کر دین سے تعلق ہی میں اضافہ نہیں ہوتا، اُردو سے محبت بھی بڑھ جاتی ہے“۔
باباے اُردو مولوی عبدالحق کا کہنا تھاکہ:

”سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اُردو زبان کو شا ئستگی عطا کی“۔

معروف اسکالر اور ماہر اقبالیات ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی فرماتے ہیں:
”مولانا مودودیؒ کو اللہ تعالیٰ نے مدلل، پُر اثر اورخوب صورت نثر لکھنے کی صلاحیت عطا کی۔ اگر کوئی شخص ان کے افکار سے اختلاف رکھتا ہو تو بھی وہ ان کی نثر کا اسیر ہو کر رہ جاتا ہے۔اپنی خوب صورت اور قاری کو جذب کرنے والی اور اپنے سحر میں اسیر کرنے والی، ان کی نثر کے بارے میں یہ کہنا غلط نہیں کہ ”جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے“۔ ایک دلچسپ بات، گورنمنٹ کالج سرگودھا کے زمانہ طالب علمی میں ہمارے ایک استادتھے رحمت علی مسلم، کٹر قادیانی تھے اور علانیہ اس کا اظہار اور اقرار کرتے تھے۔ وہ کلاس میں کہا کرتے تھے کہ میں مولانا مودودی کا بطور بہت مداح ہوں۔ مجھے ان کے خیالات اور نظریات قطعاً ناپسند ہیں، مگر وہ بہت بڑے ادیب ہیں“۔
ممتاز عالم دین اور مصنف مولانا زاہد الراشدی کہتے ہیں:
”مولانا مودودیؒ صاحب کی مغرب پر تنقید بہت جان دار ہے۔اقبالؒ کے بعد مولانا مودودیؒ ہمارے اسلامی اسکالرز میں اس وجہ سے نمایاں ہیں کہ ان کی مغرب پر تنقید اور نقطہ ¿ نظر جان دار ہے۔ان کی کتابیں ”اسلام اور جدید معاشی نظریات“ ، ”تنقیحات“ بہت مو ¿ثر ہیں“۔
مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی علمی تحریروں سے متاثر ہو کر بہت سے اہل علم ان کی تحریک کا حصہ بن گئے۔ جماعتِ اسلامی نے علمی دُنیا میں بہت بڑی تعداد میں ایسے صاحبِ طرز علماءاور مصنفین کو رُوشناس کرایاجن کی تحریریں لوگوں کے دِلوں میں اُتر گئیں اور سیرتوں میں انقلاب آگیا۔ ان میں سے ایک قابلِ لحاظ تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو جماعتِ اسلامی سے وابستہ ہونے کے نتیجے میںصاحبِ قلم اور صاحبِ تصنیف ہوگئے۔
علمی دُنیا میں مولانا مودودیؒ نے سب سے اہم کارنامہ یہ سرانجام دیا کہ معروف دینی موضوعات اور مخصوص فقہی معاملات کے علاوہ زندگی کے اُن مسائل پر بھی دینی نقطہ نظر سے رہنمائی کی جن کو ”دین ودُنیا کی تقسیم“ کا قائل ذہن دین سے الگ اور خالص دُنیاوی معاملات میں شمار کرتا تھا۔ اسی تحریک کا اثر ہے کہ آج کی دُنیا میں کوئی معاملہ ایسا نہیں جس پر دینی نقطہ نظر سے نقدوجرح نہ کی جاتی ہواور کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے جسے (ماضی کی طرح) اِسلام کے دائرہ اختیار سے باہر قرار دیا جاتاہو۔ دنیا کو کوئی بھی نیا مرحلہ درپیش ہو اُس پر دینی نقطہ ¿ نظر سے تصنیفات اور تالیفات کا ڈھیر لگ جاتاہے۔
مولانا مودودیؒ کے تصنیف کردہ ذخیرہ علم و ادب میں سے منتخب کتب کے تراجم دُنیا کی متعدد زبانوں میں ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ۵۷ نفوس سے شروع ہونے والی یہ تحریک آج دُنیا کے دُور دراز خطوں تک پھیل گئی ہے۔دیگر اسلامی تحریکوں کے ساتھ ساتھ دُنیا کا شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جہاں برصغیر (پاکستان،بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا) سے تعلق رکھنے والے مسلمان ایک معتدبہ تعداد میں موجود ہوں اور وہاں ”جماعتِ اسلامی“ کا نظم قائم نہ ہو۔ اِس توسیعِ دعوت میں بڑا حصہ مولانا مودودیؒ کے تیار کردہ لٹریچر کاہے۔
ادبی دُنیا پر اثرات:
ہرمعاشرے میں علم و ادب پیش قدمی کرتاہے اور رائے عامہ اُس کے پیچھے پیچھے چلتی ہے۔جن تحریکوںکو معاشرے کے ادیبوں اور شاعروں کی پشت پناہی حاصل ہوجائے وہ نہ صرف بڑی سرعت سے مقبول ہوتی ہیں بلکہ سوسائٹی کی بنیادی سطح تک اُتر کر مستحکم ہوجاتی ہیں۔ آج کی دُنیا سمعی وبصری ابلاغیات کی دُنیا ہے۔ اگرچہ کتب و رسائل کے مطالعہ کا رُجحان پورے معاشرے میں مجموعی طورپر کم ہوا ہے ، اِس کے باوجود رائے عامہ کی تشکیل کاکام اہلِ قلم ہی کے ہاتھوں ہو رہا ہے….ٹیلی وژن کے ڈرامے، خاکے، مزاحیہ پروگرام، دستاویزی فلمیں، تحقیقی رپورٹیں، مذاکرات ومکالمات کے پروگرام …. سب کی باگ ڈور لکھنے والوںہی کے ہاتھ میں ہے۔ٹیلی وژن چینلوں کی بھر مار کے باوجود،اخبارات کی خواندگی کی شرح، ماضی کے مقابلے میں بڑھ گئی ہے۔ برقی ذرایع ابلاغ پر اخبارات کا مطالعہ کرنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں۔ سیاسی اور نیم ادبی کالموں کی عوامی مقبولیت زیادہ ہے۔
جماعتِ اسلامی کے قیام کے وقت ادبی دُنیا پر ترقی پسند تحریک کا غلبہ تھا۔قیامِ پاکستان کے کچھ عرصہ بعد مملکت خداداد پاکستان میں کیمونسٹوں کے لیے اگرچہ حکومتی سطح پر حالات سازگار نہ رہے، تاہم اشتراکی ادیبوں اور شاعروں نے کسی نہ کسی طرح (مطبوعہ اور ریڈیائی) سرکاری ذرائع ابلاغ پر غلبہ حاصل کرلیاتھا۔ نظریہ پاکستان کے علمبردار شاعروادیب اِس دوڑ میں پیچھے رہ گئے۔ ترقی پسندوں ہی نے اپنے نظریات کے مطابق نوزائیدہ مملکت کے ادبی تشخص کی تشکیل کی اور اُنھی کی تربیت یافتہ فوج آج بھی ہمارے مطبوعہ اور برقی ذرائع ابلاغ کی مدد سے رائے عامہ پر اثر اندا ز ہورہی ہے۔سوشل اِزم کے سقوط کے ساتھ ہی ترقی پسند ادیبوں اور سوشلسٹوں کی اکثریت اپنا قبلہ بدل کر سرمایہ پرست، سیکولر اور لبرل ہوگئی۔مگررائے عامہ کی تشکیل کرنے والے ذرائع پر آج بھی انھی کا غلبہ ہے۔آج بھی پاکستان کے علمی اور ادبی محاذ پر تشکیک پھیلانے والے خیالات حملہ آور ہیں۔علمی اور تحقیقی تحریروں کے نام پر ”انکارِ علم“ کی تحریک چلائی جارہی ہے۔ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ”ہر علم غیر معتبر ہے“۔ قوم میں نفسیاتی مایوسی پھیلائی جارہی ہے۔ پاکستانی قوم کے نظریات اور خیالات کو صفر ثابت کیا جارہا ہے اور بیرونی افکار و نظریات کو طاقتور۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تحریروں نے بھی نامور ادباءاور شعراءکو اپنی طرف متوجہ کیا۔ ہوتے ہوتے اہلِ قلم کی ایک کہکشاں ان کے گرد مرتب ہوتی چلی گئی۔اِن میں مولانا مائل خیرآبادی، مولانا ماہرالقادری، ملک نصراﷲ خان عزیز، نعیم صدیقی، ملک غلام جیلانی (ادبی نام: جیلانی بی اے)، اسعد گیلانی، نسیم حجازی، عامر عثمانی، زکی کیفی،حفیظ میرٹھی، میم نسیم،محمود فاروقی، پروفیسر خورشید احمد،حفیظ الرحمٰن احسن، فروغ احمد، پروفیسر عنایت علی خان،وغیرہ وغیرہ سمیت بہت سے دیگر نام شامل ہیں اوراب تک شامل ہوتے ہی جارہے ہیں۔خواتین میں بھی آپا حمیدہ بیگم، اُم زبیر، بنت الاسلام، بنتِ مجتبیٰ مینا، سلمیٰ یاسمین نجمی اورفرزانہ چیمہ وغیرہ سمیت متعدد افسانہ نگار اور شاعرات نے مولانا مودودیؒ کی کھڑی کی ہوئی ادبِ اسلامی کی تحریک میں اپنا اپنا کردار ادا کیا۔
1948ءمیں مولانامودودیؒ کی تحریک پر ”حلقہ ادبِ اسلامی“ کی تشکیل کی گئی۔ اِس حلقہ سے وابستہ ادیبوں اور شاعروں نے تخلیقی سطح پر توکوئی بہت بڑا کام سر انجام نہیں دیا، ماسوائے نعیم صدیقی کی چند معرکہ آراءنظموں کے۔(طوالت سے بچنے کے لیے مثالیں نہیں دی جارہی ہیں)۔ مگر تنقیدی سطح پر حلقہ ادبِ اسلامی نے بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔یہ وہ زمانہ تھا کہ جب ادب میں فحاشی کانیانیا سیلاب آیا ہوا تھا۔مولانا مودودیؒ کی شہرہ آفاق کتاب ”پردہ“ میں نومالتھوسی عالمی تحریک کے فحش ادب سے لے کر اُردو ادب میں در آنے والی فحاشیوں سمیت رائج الوقت فحش ادب پر دنداں شکن علمی و ادبی تنقید کی گئی۔ چراغِ راہ مشیر، کوثر، تسنیم اوردیگر جرائد نے ”لچرلٹریچر“ کی خوب خبر لی اورثابت کیا کہ اِن مغلظات کا ادب سے دُور کا بھی واسطہ نہیں۔ نتیجہ یہ کہ بہت سے نوآموزادیب اِس پھیلتی ہوئی وبا کی لپیٹ میں آجانے سے محفوظ رہے۔ فحش نگاروں کی ایسی مٹی پلید کی گئی کہ پاکستانی شعرو ادب کے گلشن میں یہ شجرِ خبیثہ مزید پھول سکا نہ پھل سکا۔
چراغِ راہ کے ”نظریہ پاکستان نمبر“ میں اُن ادبی نگارشات کا جائزہ لیا گیا جن میں نظریہ پاکستان کی بنیادوںپر تیشہ چلایا گیا تھا۔ بالخصوص قرة العین حیدر کے عالمی شہرت یافتہ ناول ”آگ کا دریا“ پر مفصل اوربھرپور محاکمہ کیا گیا۔ یہ ناول سرکاری انعام کے لیے زیرِ غور تھا۔نظریہ پاکستان کے ابطال میں لکھے جانے والے اِس ناول پرایسی موثرادبی تنقید کی گئی کہ انعام توکیا ملتا، ناول کی مصنفہ پاکستان کی سفارتی ملازمت اور پاکستانی شہریت چھوڑ کر بھارت کی شہری جابنیں۔ پاکستان میں اس ناول کا سنسر شدہ ایڈیشن فروخت کیا جاتا ہے۔
1948ءہی میں ”ادبِ اسلامی کی تحریک“ باقاعدہ تنظیمی سطح پر شروع کی گئی۔جابجاحلقہ ہائے ادبِ اسلامی بن گئے۔ادبی نشستیں ہونے لگیں۔ان حلقوں کے مباحث نے اتنا زور پکڑا کہ ترقی پسندوں کے ہاں بھی اِس موضوع پر بڑی بحثم بحثا ہوئی۔ ماہنامہ ”نقوش“ نے بھی ایک نمبر نکالا جس کا موضوع تھا:”اِسلامی ادب کیا ہے؟“ ماہنامہ ”مشیر“ کراچی کا ”اِسلامی ادب نمبر“ اورماہنامہ” چراغِ راہ“کراچی کا ”شعرنمبر“ بھی اسلامی ادب کے موضوع پر نکلنے والے یادگارشماروںمیں شمار ہوتاہے۔ماہنامہ سیارہ ڈائجسٹ کا ”قرآن نمبر“ اور ماہنامہ نقوش کا ”رسول نمبر“ بھی ”اِسلامی ادب“ ہی کے شاہکاروں پر مشتمل ہے۔یہ سب”تحریکِ ادبِ اسلامی “کے اثرات و ثمرات ہیں۔
ہرچند کہ ”ادبِ اسلامی کی تحریک“ ترقی پسند ادب کی تحریک کی طرح قبولیتِ عام اور شہرتِ دوام حاصل نہ کرسکی،مگر اس کے بطن سے ”پاکستانی ادب“ کی ایک تحریک تولد ہوئی جس کے سرخیل محمد حسن عسکری اور محمد دین تاثیر جیسے سابق ترقی پسند ادیب بنے۔ سلیم احمد اور انتظار حسین انھی عسکری صاحب کے شاگرد تھے۔”پاکستانی ادب“ کی تحریک بھی وہ کامیابی حاصل نہیں کرسکی جو ترقی پسند ادب کی تحریک کے حصے میں آئی تھی۔ تاہم ادبِ اسلامی کی تحریک اور پاکستانی ادب کی تحریک کے نتیجہ میں خود ترقی پسندوں ہی میں سے ایسے ادیبوں اور شاعروں کا ایک حلقہ نمودار ہوگیا جسے اصطلاحاً ”دائیں بازو کے ادیب اور شاعر“ کہا گیا۔ سن ستّر کی دہائی میں جماعتِ اسلامی ایسے ادیبوں اور شاعروںکی بہترین پناہ گاہ ثابت ہوئی۔
جس طرح مولانا مودودیؒ کے دینی لٹریچر نے ملحدانہ غیر ملکی نظریات کے آگے معارفِ اسلامیہ کا ایک مضبوط بند باندھ دیا اور اِسلام کی جامعیت اور کاملیت کو قومی شعور کے اندر پوری طرح راسخ کردیا۔ اُسی طرح ”تحریکِ ادبِ اسلامی“ نے بھی ملک کے شعرا اور ادبا پر اِسی قسم کے مثبت لاشعوری اور نفسیاتی اثرات مرتب کیے۔ چناں چہ سوشل اِزم کا نعرہ لگاکر برسر اقتدار آنے والے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جب لاہور میں اِسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی اور رائٹرز گلڈ کے جمیل الدین عالی سے اِس کے لیے ایک ملی نغمہ لکھنے کو کہا گیا تو اُنھوں نے ایک ایسا ملی ترانہ لکھا جو جمیل الدین عالی کا نہیں، تحریکِ ادبِ اسلامی کے سالارِ کارواں نعیم صدیقی کا لکھا ہوا  محسوس ہوتاہے۔ نمونہ کے طورپر صرف ایک بند ملاحظہ فرمائیے

دین ہمارا دینِ مکمل
استعمار ہے باطلِ ارذل
خیر ہے جدوجہدِ مسلسل
عند اﷲ! عند اﷲ!
ہم تابہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں
ہم مصطفوی، مصطفوی، مصطفوی ہیں

مولانامودودیؒ کے سانحہ ارتحال (1979ء) کے موقع پر ایک بار پھر ادبِ اسلامی کے علمبرداروں کے خوابیدہ جذبات جاگ اُٹھے۔نہایت اعلیٰ درجہ کی شاعری،خاکہ نگاری اور جذبات نگاری ہوئی۔مگر 1980ءکے بعد شروع ہونے والی دہائی سے یہ تحریک پھر کمزور پڑتی چلی گئی۔موقع ملنے کے باوجود برقی ذرائع اِبلاغ تک رسائی حاصل نہیں کی گئی۔نہایت اعلیٰ معیار کا ادبِ اسلامی تخلیق کرنے والے ادیبوں، افسانہ نگاروں، ڈراما نویسوں، شاعروں، مزاح نگاروںاورمزاح گو شعرا کو شخصی طورپر اُجاگر کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔جیسا کہ ترقی پسنداپنے ادنیٰ سے ادنیٰ ادیب کے لیے بھی کیا کرتے تھے۔نتیجہ یہ نکلا کہ پھکڑبازوں کو عروج حاصل ہوا اور ادبِ عالیہ کے معماروں کوسواے ناقدری اور اِس کے نتیجہ میں مایوسی کے کچھ حاصل نہ ہوسکا۔
شعری اور نثری تخلیقات کے ذریعہ سے پہنچائے گئے پیغامات معاشرے پر اپنے جو گہرے اَن مِٹ اثرات چھوڑتے ہیں، اُن کے پیشِ نظراِس شعبہ کو ملک بھر میں ایک بار پھر فعال کرنے کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت محسوس ہوئی۔ باطل قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اِسلامی ذہن رکھنے والے تمام ادیبوں اور شاعروںکو اُن کی سیاسی یا مسلکی وابستگی کا امتیاز کیے بغیر ایک متحدہ قوت بنانے کی ضرورت کا احساس ہوا۔ اس کے نتیجہ میں 26/اگست 2017ءکو پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد کی سرپرستی میں ”دائرہ علم و ادب پاکستان“ کا قیام عمل میں آیا۔ اس کا تاسیسی اجلاس اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ اب الحمدللہ اس کی سرگرمیاں گلگت – بلتستان، آزاد کشمیر، پاکستان کے چاروں صوبائی دارالحکومتوں، وفاقی دارالحکومت اور ملک کے متعدد بڑے شہروں میں جاری و ساری ہیں۔ یوں فکرِ مودودیؒ کے ثمرات سے آج بھی استفادہ کیا جا رہا ہے۔
بچوں کے ادب پر اثرات:
جماعتِ اسلامی نے اپنے آغاز کے وقت ہی سے بچوں کے ادب کو اہمیت دی۔ہرعمر کے بچوں کے لیے کہانیاں، نظمیں، ناول اور سیرت النبی، سیرتِ صحابہؓ اور سیرتِ اسلاف پر مشتمل کتابیں شائع کی گئیں۔اِن کتابوں نے ایک پوری نسل کی نسل کو تحریکِ اسلامی کے کارواں سے لاکر جوڑ دیا۔بچپن کے مطالعہ کے اثرات تمام عمر رہتے ہیں۔جوبات کچی عمروں میں ذہن پر نقش ہوجائے وہ تمام عمر کھرچ کھرچ کر مٹانے سے بھی نہیں مٹتی۔بچوں کے ادب کا شعبہ وہ واحد شعبہ ہے جس پر تحریکِ جماعتِ اِسلامی کے گہرے اثرات اب تک برقرار ہیں اور اب اِس میدان میں تحریکِ اسلامی کا کوئی قابلِ ذکر مدِّ مقابل بھی باقی نہیں رہا۔ملک کے طول وعرض سے نکلنے والے پینتیس(35) سے زائد بچوں کے رسائل وجرائد میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو اِسلام اور نظریہ پاکستان کا پرچار نہ کرتاہو ۔بچوں کے اِن رسائل کے قلم کاروں کی اکثریت بھی اِسلامی ذہن رکھنے والوں پر مشتمل ہے۔اِس کا سہرا یقینا اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق اور موجودہ کارکنان کے سر بھی بندھتاہے۔ اِسلامی جمعیت طلبہ ملک بھر میں بچوں کے لیے متعدد ماہانہ رسائل جاری کرتی ہے۔اِن رسائل کے قاری بچوں کی تنظیمیں بھی قائم کی گئی ہیں۔ اِن تنظیموں کے تحت ملک بھرمیں بچوں کے لیے ادبی پروگرام بھی ہوتے ہیں۔ یہی تنظیمیں بچوں کو مطالعہ کے لیے اُن کی ادبی کتابیں بھی عاریتاً دیتی ہیں۔محلوں کی سطح پر ان کی ”جمعہ لائبریریاں“ قائم ہیں جو جمعہ کی نماز کے بعد مساجد کے آگے بچوں سے اِن کتابوں کا لین دین کرتی ہیں۔ وطنِ عزیز پاکستان میں اِن تنظیموں کے سوا کوئی بھی غیر سرکاری تنظیم ایسی نہیں ہے جوابتدائی درسی جماعتوں کے بچوں پر مشتمل ہواور جو محض چند گھنٹوں کی مہلت میں سیکڑوں بچوں کو یکجاکرسکتی ہو۔اِنھی رسائل نے ملک کو بچوں اور بڑوں کے بہت سے ادیب اور صحافی بھی فراہم کردیے ہیں۔
تحریکِ اسلامی کی اِس ”نرسری“ کی آبیاری اور نشوونما پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مخیر افراد کے تعاون سے بچوںکی ”جمعہ لائبریری“ کے کام کو ملک کے ہر محلے کی سطح تک پہنچا دینا چاہیے۔جدید طباعتی تقاضوں کے مطابق تحریکی اداروں کی طرف سے بچوں کے ادب پر مشتمل کتابوں کی ازسرنو اشاعت بھی بہت ضروری ہے جس کا سلسلہ اب تقریباً تقریباً رُک ہی گیا ہے۔ علاوہ ازیں بچوں کے لیے سمعی و بصری لوازمات کی تیاری کی بھی اشد ضرورت ہے۔ الحمدللہ اس میدان میں بھی کام کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
صحافت اور صحافتی ادب پر اثرات:
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ پیشے کے لحاظ سے خود بھی صحافی تھے۔ اُن کے ماہانہ جریدے ”ترجمان القرآن“ نے عالمی شہرت ووقعت حاصل کی۔مولاناؒ نے سیاسی واقعات کے نظریاتی تجزیے کی بنیاد ڈالی۔ اُن کا یہ علمی انداز بے حد مقبول ہوا اوررفتہ رفتہ ہماری دُنیائے صحافت میں رائج ہوتا چلا گیا۔ماہنامہ ”ترجمان القرآن“ کے علاوہ بھی جماعتِ اسلامی کے جرائد مشیر، کوثر، تسنیم، چراغِ راہ، ایشیا، آئین، بتول،روزنامہ ”جسارت“ کراچی، روزنامہ ”انصاف“ لاہور اور ہفت روزہ ”فرائیڈے اسپشل“ کراچی نے نظریاتی صحافت کے رواج میں بڑا اہم کردار ادا کیا ۔ ماہنامہ ”اُردو ڈائجسٹ“ اور ہفت روزہ ”زندگی“ جیسے جرائد بھی ان کی فکر سے متاثر ہوئے۔ان اداروں سے بہت بڑے بڑے اور نامور صحافی پاکستانی صحافت کو میسر آئے، جن کی صحافیانہ برتری کا ڈنکا آج بھی بج رہاہے۔
صحافت سے زیادہ فکر مودودیؒ صحافتی ادب پر اثر انداز ہوئی۔مجلاتی صحافت پر اس کے اثرات بہت گہرے ہیں۔بھٹو صاحب کے دور میں شائع ہونے والے ”جسارت“کے اداریوں نے ”اداریہ نویسی“ کو صحافتی ادب کا شہکار بنادیا۔اُس زمانے میں لوگ صرف ”جسارت“ کے اداریے پڑھنے کو ”جسارت“ خریدا کرتے تھے۔کالم نگاری کو بھی تحریکِ اسلامی نے موثر نظریاتی ابلاغ کا ایک مقبول ذریعہ بنادیا۔ ملک نصراﷲ خاں عزیز، مولانا نعیم صدیقی اور آباد شاہ پوری سے لے کر ”جسارت“ کے مقبول ترین کالم نگار ”خامہ بگوش“ تک نظریاتی کالم نگاری کا فن عروج پر پہنچ گیا۔ایک ادبی سروے کے مطابق ”خامہ بگوش“ (مشفق خواجہ مرحوم)کو ملک کے تمام کالم نگاروں نے بالاتفاق اپنا ”پسندیدہ ترین“ کالم نگار قراردیا تھا۔آج بھی بہت سے لوگ نظریاتی کالم نگاری کر رہے ہیں۔
دیگر اخبارات میں رائج ”فلمی صفحات“ کے متبادل کے طور پر ”جسارت“ نے ”ادبی صفحہ“ کا اجراکیا۔جس کی تقلید بعد کو دیگر اخبارات نے بھی کی۔ تاہم ”جسارت“ کے ادبی صفحہ کی مقبولیت کا مقابلہ کوئی نہ کرسکا۔ اِس صفحہ کے نگراں ڈاکٹر معین الدین عقیل ہوا کرتے تھے جوبعد میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں کلیہ اُردو کے ڈین ہوئے۔اب ’وظیفہ یاب‘ ہیں اور کراچی میں مقیم ہیں۔
متعدد نامورعلمائ، سیاست دان، سفارت کار، ادیب، شاعر، صحافی، ماہرینِ نشریات،ماہرینِ ابلاغیات اور کالم نگار ”جسارت“ کے مجلاتی صفحات پر لکھتے رہے ہیں۔ان مشاہیر کی فہرست بنائی جائے تو سینکڑوں تک جا پہنچتی ہے۔اگراخبارات کے صفحات میں دفن ہو جانے والی ان قیمتی تحریروں کا انتخاب شائع کیا جائے تو کثیر تعداد میں یادگار کتابیں تیار ہوسکتی ہیں۔ان تمام قلم کاروں نے صحافتی ادب پر مفید اور مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔ان اثرات کی جھلک آج بھی تقریباً تمام اخبارات کے مجلاتی صفحات پر نظرآتی ہے۔
آج ایک ایسے دور میں کہ جب آئے دِن نت نئے اخبارات افُقِ صحافت پر طلوع ہوتے جاتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اُن کاسورج نصف النّہار پر پہنچ کر پوری آب وتاب سے چمکنے لگتاہے‘ گزشتہ چالیس برسوں سے شائع ہونے والا روزنامہ ”جسارت“ زبوں حالی کا شکار ہے۔ یہی حال ہفت روزہ ”فرائیڈے اسپشل“ کاہے۔اِس کا سبب محض ترجیحات کی فہرست میں اِن جرائد کی عدم موجودگی اور اِسی باعث اِن پر عدم توجہی ہے۔درخشندہ اور تابندہ روایات رکھنے والے ادارے بہ آسانی وجود میں نہیں آتے۔نہ جانے کتنے جانثاروں کا خونِ جگر ان کی تعمیر وتشکیل میں صرف ہوچکاہے۔ ایسے اداروں کو نہ صرف ختم ہوجانے سے بچانا چاہیے، بلکہ انھیں بہتر نشوونما کے مواقع بھی فراہم کرنے چاہئیں۔انھیں اتنا مضبوط اور مستحکم کیا جانا چاہیے کہ وہ اپنے میدان میں بسہولت اپنا رہنما کردار ادا کرتے رہیں۔
تحریکی نظم ونسق کے تحت ایک مثالی ٹیلی وژن چینل کی ضرورت کا احساس بھی اب روز بروز بڑھتاجارہاہے۔وسائل اور باصلاحیت افراد کی کمی نہیںہے، صرف عزم، ارادے اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
حاصلِ کلام:
علم وادب اورصحافت سے تعلق رکھنے والے اِن چارشعبوں کا یہ محض ایک سرسری جائزہ ہے۔ان موضوعات کا مفصل تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ کیا جائے تو اس سے نئے آنے والوں کی راہ نُمائی ہوگی۔
مذکورہ بالا شعبوں کے علاوہ خواتین، خدمتِ خلق، اورتعلیم کے شعبوں سمیت بہت سے دیگر شعبہ ہاے حیات میں بڑا وقیع کام ہوا ہے اور متعدد شعبوں میں اب بھی ہورہا ہے۔ان تمام کاموں کاجائزہ لے کر انھیں اِس طرح سے باہم مربوط اور منضبط کرنے کی ضرورت ہے کہ ہراینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی چلی جائے، یوں پوری ملت استعماری یلغار کے خلاف ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن سکے گی۔
آنے والے دور میں عالمی شکست و ریخت کے سبب سیاسی، معاشی اور تہذیبی قیادت کا جوزبردست خلا پیدا ہونے والا ہے، اُسے لپک کر پُر کردینے کی تیاری اگر اُمّتِ مسلمہ کے اہلِ علم ودانش نہیں کریں گے تو قانونِ فطرت کے مطابق قیادت کا یہ خلا کوئی اور پُر کردے گا۔اِس وقت پوری اُمت کو ایک ولولہ انگیز قیادت کی ضرورت ہے، یہ قیادت صرف اسلامی تحریکیں ہی فراہم کر سکتی ہیں اور کر رہی ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی برپا کی ہوئی تحریکِ جماعتِ اسلامی ’احیاے اسلام‘ کی ایک ہمہ گیر تحریک ہے۔ اس ہمہ گیریت کو برقرار رکھنے اورترقی دینے کی ضرورت ہے۔

٭….٭