سید حسین فاروق مودودی
ملت اسلامیہ کے عظیم مفکر، مفسر، ادیب، سکالر اور راہنما سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ 23 ستمبر 1979ء کو انتقال کر گئے تھے، لیکن اپنی فکر اور علمیت کی وجہ سے وہ آج بھی زندہ ہیں۔ دنیا میں کروڑوں مسلمان ان کی تحریروں اور فکر سے ’’تعمیر سیرت‘‘ کے لیے راہنمائی حاصل کر رہے ہیں۔
مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ دو قومی نظریے کے بانیوں میں سے تھے، افسوس وطن عزیز میں انکے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ خدانخواستہ ’’پاکستان‘‘ کے مخالف تھے اور کانگریس کے حمایتی…
سب سے پہلے اس بات کو واضح طور پر سمجھ لینا چاہیے کہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ ایک مفکر ہیں اور علوم اسلامیہ اور جدید علوم سے بہرہ مند کامل شخصیت ہیں، وہ اپنی علمیت اور سوچ کی بنا پر نہ صرف برصغیر پاک و ہند بلکہ عالم اسلام میں اپنی شناخت رکھتے ہیں اور ہر مکتب فکر ان کا احترام کرتا ہے۔ اس لیے ان کو تحریک پاکستان کے پس منظر میں ایک فالور کے طور پر نہیں بلکہ ایک مفکر راہنما کے طور پر دیکھا اور سمجھا جائے اسی طرح جیسے علامہ اقبالؒ ایک فکر اور سوچ کے حامل عظیم مفکر اور شاعر ہیں۔
دوسرا اہم نکتہ ابتداء میں سمجھ لینا ضروری ہے کہ برصغیر میں دو طرح کے نظریات (فکری اور سیاسی طور پر) موجود تھے اولاً وہ لوگ جو ہندوستانی نیشنلزم کا پرچار کرتے تھے، وطنیت کی بنیاد پر متحدہ ہندوستان کے حامی تھے۔
دوم۔ وہ افراد جو ہندوستان میں دو قوموں (ہندو اور مسلمان) کی بنیاد پر الگ شناخت پر زور دیتے تھے ان کے نزدیک مسلمان اور ہندو ہر لحاظ سے دو الگ الگ قومیں ہیں۔ ان کی تہذیب و تمدن، بول چال، رہن سہن ہر چیز جدا ہے بلکہ ایک کے ہیرو دوسرے کے ولن ہیں۔ ہندو گائے کی پوجا کرتے ہیں جبکہ مسلمانوں کے لیے گائے کا گوشت حلال ہے اور وہ اس کو ذبح کر کے اس کا گوشت کھاتے ہیں۔ اسی نظریہ کو دو قومی نظریہ کہا جاتا ہے جس کے تحت یہ افراد سمجھتے تھے کہ مسلمان متحدہ ہندوستان میں ہندوئوں کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتے اس لیے ان کو علیحدہ خطہ ارض کی ضرورت ہے جہاں وہ اپنے دین کے مطابق زندگی گزار سکیں۔یہی نظریاتی یگانگت ان افراد میں تھی جس کے سرخیل علامہ اقبالؒ اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ تھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو، گاندھی صاحب، مولانا ابوالکلام آزاد، ڈاکٹر سید ذاکرحسین وغیرہ ان کے نظریاتی اور سیاسی مخالفین تھے۔
مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور ڈاکٹر محمد اقبالؒ دونوں مفکر تھے اور اپنی اپنی فکر رکھتے تھے لیکن ان کا مشترک نظریہ تھا بلکہ ہے وہ ہے ’’دو قومی نظریہ‘‘ جو نظریہ پاکستان کی بنیادی اساس ہے، یعنی دونوں مفکرین ہندوستان کے مسلمانوں کی بقا اس بات میں سمجھتے تھے کہ وہ ایک الگ خطہ ارضی پر اسلام کی تعلیمات کے مطابق زندی گزار سکیں۔ علاوہ ازیں دیگر مسلمان زعماء و قائدین بھی تھے جنہوں نے اس نظریہ کے مطابق اپنا اپنا موقف پیش کیا۔ جیسے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے سیکرٹری سید شریف الدین پیرزادہ نے ان الفاظ میں لکھا ہے۔
’’وہ تجاویز اور مشورے جو سر عبداللہ ہارون، ڈاکٹر لطیف، سر سکندر حیات، سر ظفر الحسن، ڈاکٹر قادری، مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ، چوہدری خلیق الزماں وغیرہ نے دئیے، وہ ایک معنی میں پاکستان تک پہنچنے والی سڑک کے سنگ ہائے میل ہیں۔‘‘ آگے چل کر وہ لکھتے ہیں۔
’’مولانا مودودیؒ نے ترجمان القرآن کے سلسلہ ہائے مضامین کے ذریعے جو 1938-39ء شائع ہوئے، کانگریس کے چہرے سے نقاب اتاری اور مسلمانوں کو متنبہ کیا۔ مولانا نے برصغیر میں مسلمانوں کی تاریخ کا جائزہ لیا، کانگریس کی لادینیت کی قلعی کھولی اور یہ ثابت کیا کہ ہندوستان کے مخصوص حالات میں اس کے لیے جمہوریت ناموزوں ہے، اس لیے کہ اس میں مسلمانوں کو ایک ووٹ اور ہندوئوں کو چار ووٹ ملیں گے، انھوں نے ہندوئوں کے قومی استعمار کی بھی مذمت کی اور اس رائے کا اظہار کیا کہ محض مخلوط انتخاب یا اسمبلیوں میں کچھ زیادہ نمائندگی اور ملازمتوں میں ایک شرح کا تعین مسلمان قوم کے سیاسی مسائل کا حل نہیں ہے۔ جو تجویز انھوں نے پیش کی اس میں تین متبادل صورتوں کی نشاندہی کی گئی تھی ان صورتوں میں آخری صورت تقسیم ملک کی تھی۔‘‘
علامہ اقبالؒ کا مولانا مودودیؒ سے تعارف پہلی بار ان کی کتاب ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ سے ہوا جو انھوں نے محض 24 سال کی عمر میں لکھی۔ اس کا پہلا ایڈیشن(کتابی صورت میں) 1930ء میں شائع ہوا، علامہ اقبالؒ نے اس کتاب کو اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانونِ صلح و جنگ پر ایک بہترین تصنیف قرار دے کر اہل علم حضرات کو اس کے مطالعہ کا مشورہ دیا۔اس سے پہلے کہ ہم مولانا مودودیؒ کے تین فارمولوں کو پیش کریں، ایک نظر علامہ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کے تعلق پر ڈال لیتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ 1930ء کے بعد سیاست میں کافی حد تک متحرک ہوئے لیکن ایک مفکر کے طور پر انھوں نے تخلیق اور فکر پر زیادہ زور دیا، یہ ان کی تخلیق اور فکر کے حوالے سے اوج کا زمانہ تھا، انھوں نے اپنی تخلیق اور فکر کے تصور کو عملی صورت میں ڈھالنے کے لیے جہاں قائد اعظم محمد علی جناحؒ و دیگر شخصیات کو ابھارا، وہاں مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو بھی لاہور منتقل ہونے کا مشورہ دیا تاکہ وہ اس خطے میں جہاں ان کے خیال کے مطابق اسلامی ریاست بنانا مقصود تھی بیٹھ کر عملی جدوجہد کریں۔ علامہ اقبالؒ مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے یہ اندازہ لگا چکے تھے کہ وہ ’’دو قومی نظریے‘‘ کے زبردست داعی بن سکتے ہیں۔ انھوں نے جس طرح کانگریس اور ان کے ہمنوائوں کا محاسبہ کیا وہ ان کے نزدیک قابل تحسین تھا، اس وقت ایک ایسے مصلح کی ضرورت تھی جو اپنی تحریروں سے قوم کو ہلاکت سے بچائے اور اسلامی ہند کی گزشتہ تاریخ اور موجودہ حالت پر محض ایک صحافی، ادیب، مورخ یا سیاست دان کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک مسلمان کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرے، اس کے مخاطب صرف وہ لوگ ہوں جو اول بھی مسلمان ہیں اور آخر بھی مسلمان۔ ایک ایسی شخصیت جسے صرف سیاسی آزادی اور معاشی استقلال ایک ہندوستانی کی حیثیت سے درکار نہ ہو، جو کانگریس کے نظریہ قوم پرستی کے پرخچے اڑا سکے، جس کا قلم اس قابل ہو کہ مسلمانوں کے دل میں اس کی بات اتر جائے، جو اعلیٰ ادبی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ جرأتِ ایمانی اور صفاتِ مومن سے مالا مال ہو، انھوں نے بھانپ لیا کہ یہ مولانا مودودیؒ ہی ہو سکتے ہیں جو کانگریس کے حقیقی روپ کو بے نقاب کرنے اور ہندو سامراج کے ہتھکنڈوں سے ملت اسلامیہ کو آگاہ کر کے انہیں اس جال سے بچنے کی تلقین کریں جو بعض علماء اور مسلمانوں کی مدد سے کانگریس پھینک رہی تھی۔( کانگریس کے پھندے سے مسلمانوں کو بچانے کے لیے انھوں نے دن رات کام کیا جس کے باعث وہ آج تک مسلمانوں کے ایک گروہ کے نزدیک معتوب ہیں)۔
اقبالؒ سمجھتے تھے کانگریس کے پروپیگنڈے کے توڑ کے لیے موثر اور لاجواب دلائل بہم پہنچانے والی شخصیت مولانا مودودیؒ ہی ہو سکتے ہیں۔مولانا مودودیؒ اور علامہ اقبالؒ کی اولین ملاقات کا باعث پٹھان کوٹ کا ’’دارالسلام‘‘ بنا۔ ہوا کچھ یوں کہ موضع جمال پور (پٹھانکوٹ) کے ایک ریٹائرڈ ایس ڈی او (محکمہ انہار) چودھری نیاز علی ایک جرمن نو مسلم محمد اسد کی معیت میں لاہور آئے اور عرض کی کہ انھوں نے جمال پور میں ایک دینی مدرسے کے لیے 70 ایکڑ زمین وقف کر دی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے فرمایا دینی مدرسے تو اور بھی کافی تعداد میں ہیں، اس وقت اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ فقہ اسلامی کو جدید زمانے کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کا کام سر انجام دیا جائے، چنانچہ اس ادارے کے اغراض و مقاصد میں یہ چیز شامل ہونی چاہیے، چنانچہ مذکورہ کام کو بطریق احسن سر انجام دینے کے سلسلے میں کئی نام زیر غور آئے، مولانا عبیداللہ سندھی، سید سلیمان ندوی، عبداللہ یوسف علی اور علامہ محمد اسد سے اس ضمن میں رابطہ قائم کیا گیا لیکن ان حضرات نے اپنی مجبوریوں کی بنا پر معذرت کر دی۔ اس وقت مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا نام بھی علامہ اقبالؒ نے چودھری نیاز علی کے سامنے پیش کیا۔
چنانچہ علامہ اقبالؒ اور چودھری نیاز علی نے الگ الگ مولانا مودودیؒ سے حیدر آباد میں مراسلت شروع کر دی، علامہ اقبالؒ نے مولانا مودودیؒ سے وعدہ کیا کہ وہ بھی سال میں چھ مہینے اس ادارے میں گزاریں گے، اس پر مولانا مودودیؒ نے چوہدری نیاز علی کے نام مکاتب میں اس ادارے کے لیے ایک جامع خاکہ لکھ کر انہیں بھیجا، اس دوران علامہ اقبالؒ کا اصرار بھی حد سے زیادہ بڑھ گیا کہ مولانا مودودیؒ شمالی ہندوستان کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنائیں چنانچہ مولاناؒ نے چوہدری نیاز علی کو دہلی میں ملنے کا کہا، دہلی میں اس معاملے میں بات چیت ہوئی، مولانا مودودیؒ کچھ قائل ہو گئے، چنانچہ اگست 1937ء کے اواخر میں دونوں صاحبان جالندھر سے ہوتے ہوئے لاہور آئے اور علامہ اقبالؒ سے ملاقات کی جس میں طے پایا کہ علامہ اقبالؒ سال میں چھ ماہ پٹھانکوٹ میں گزاریں گے۔ اس کے بعد نیاز علی صاحب کے پاس آئے، اور ان کی علامہ اقبالؒ سے تفصیلی ملاقاتیں مسلسل تین دن ہوتی رہیں، ان ملاقاتوں میں جمال پور (پٹھانکوٹ) کے اس مدرسے کا نام
مولانا مودودیؒ نے ’’دارالسلام‘‘ تجویز کیا جسے علامہ اقبالؒ نے انتہائی پسند فرمایا، اس دوران میں وہ حیدر آباد چلے گئے تاکہ اپنا سازوسامان لے آئیں، وہ اپنا سامان لے کر 18 مارچ کو پٹھان کوٹ پہنچے۔ ان کا ارادہ تھا کہ وہ جلد لاہور پہنچ کر علامہ سے ملاقات کر کے آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کریں گے لیکن 21 /اپریل کو علامہ اقبالؒ انتقال کر گئے۔
دوسری طرف غور کریں تقسیم ہند کے منصوبے کی تجویز بھی انہی ملاقاتوں کے درمیان مولانا مودودیؒ نے تحریر کی۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ 1930ء کے خطبہ الٰہ آباد کے بعد برصغیر کی بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال میں علامہ اقبالؒ کے ساتھ گفتگو مولانا مودودیؒ کی لازمی ہوئی ، علامہ اقبالؒ نے اسے سراہا تبھی تو ان کا اعتماد مولانا مودودیؒ پر اتنا بڑھا کہ انھوں نے نہ صرف مولانا مودودیؒ کی ’’دارالسلام‘‘ کی تجویز کو قبول کیا بلکہ چھ ماہ ان کے ساتھ گزارنے کی حامی بھی بھر لی، مولانا مودودیؒ کی ان تجاویز کو بھی مفکر پاکستان کی حمایت حاصل رہی ، کم از کم ہم کہہ سکتے ہیں کہ مولانا مودودیؒ کا پلان علامہ اقبالؒ کی نظر سے ضرور گزرا ہو گا اور اس پر تفصیلی گفتگو ہوئی ہو گی، اگر علامہ اقبالؒ کو اس پلان سے اختلاف ہوتا تو وہ ’’دارالسلام‘‘ کے منصوبے میں کبھی بھی مولانا مودودیؒ کے ساتھ شراکت و تعاون کا اقرار نہ کرتے……
شہباز شریف نے جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کی،صرف ایک کیس میں 16ارب کی چوری پکڑی گئی
مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے تقسیم ہند کا مندرجہ ذیل پلان پیش کیا تھا۔
پہلا خاکہ:۔دو یا زائد قوموں کے ملک میں ایک جمہوری ریاست بنانے کی صحیح اور منصفانہ صورت یہ ہے اولاً وہ بین الاقوامی وفاق (INTERNATIONAL FEDERATION)کے اصول پرمبنی ہو یا دوسرے الفاظ میں وہ ایک قوم کی ریاست نہیں بلکہ متوافق قوموں کی ایک ریاست (A STATE OF FEDERATED NATIONS) ہو۔
ثانیا ً اس وفاق میں شریک ہونے والی ہر قوم کو تہذیبی خود اختیاری(CULTURAL AUTONOMY)حاصل ہو یعنی ہر قوم اپنے مخصوص دائرہ زندگی میں اپنے گھر کی تنظیم واصلاح کے لئے حکومت کے اختیارات استعمال کرسکے۔
کشمیری رہنماچوہدری غلام عباس کی 54ویں برسی آج منائی جارہی ہے
ثالثاً مشترک وطنی معاملات کیلئے اس کا نظامِ عمل مساویانہ حصہ داری(EQUAL PARTNERSHIP) پر تعمیر کیا جائے۔
ہندوستان کے حالات کو سیاسی نقطہ نظر سے سمجھنے اور حل کرنے کی جن لوگوں نے کوشش کی ہے انھوں نے یہ بات تو تسلیم کرلی ہے کہ اس ملک کیلئے وحدانی (UNITARY)طرز کی حکومت موزوں نہیںہے بلکہ یہاں ایک سٹیٹ اگر بن سکتا ہے تو وہ صرف وفاقی اصولوں پر بن سکتاہے ۔مگر افسوس یہ ہے کہ وہ حالات کے صرف ایک پہلو کو دیکھ کر اس نتیجے پر پہنچے ہیں، دوسرا پہلوان کی نگاہوں سے اوجھل رہ گیا ہے ۔انھوں نے صرف اس وقت تک واقعات کو دیکھا اور سمجھا کہ یہاں خودمختار ریاستیں اور برٹش انڈیا کے صوبے ایک دوسرے سے مختلف ہیںاور خود صوبوں کی زبان، روایات، معاشرت اور عمرانی مسائل میں کافی تفاوت ہے اس لئے وہ صرف اس نتیجے تک پہنچ سکے کہ ان سب کو ایک مرکزی اقتدار کے بالکلیہ تابع بنا دینادرست نہیں ہے بلکہ ان کی اندرونی خود مختاری کو برقرار رکھ کر ان کے درمیان وفاقی تعلق قائم کرنا چاہئے لیکن واقعات کے اس پہلو پر ان کی نگاہ نہیں پہنچی کہ یہاں ریاستوں اور صوبوں کی طرح قوموں کے درمیان بھی اصول،طرز زندگی،روایات،قومی اور ضروریاتِ اجتماعی میں کافی تفاوت ہے ۔اس حقیقت کو نظر انداز کردینے کی وجہ سے انھوں نے مختلف قوموں کو ایک وحدانی طرز کی حکومت میں باندھ کر رکھ دیا۔ درآنحالیکہ جو وجود ریاستوں کے معاملے میں وفاقی اصول اختیار کرنے کے مقتضی ہوتے ہیں ان سے زیادہ قومی وجوہ قوموں کے معاملہ میں وفاقی اصول اختیار کرنے کے مقتضی ہیں۔
وفاق کی وضاحت کرنے کے بعد سید مودودی کہتے ہیں: ’’وفاق کی اس روح کو سمجھ لینے کے بعدکسی سیاسی فہم وبصیرت رکھنے والے شخص کیلئے اس حقیقت کا ادراک کر لینا مشکل نہیں ہے کہ اس نوعیت کا وفاق جس طرح ریاستوں (یعنی الگ الگ جغرافیائی خطے والی جماعتوں )کے درمیان ہوسکتا ہے ۔ اسی طرح قوموں (یعنی ایک ہی جغرافیائی خطے میں رہنے والی مختلف المذاہب یا مختلف التمدن جماعتوں) کے درمیان بھی ہو سکتا ہے۔البتہ اصول وفاق کا انطباق(APPLICATION) دونوںصورتوں میں مختلف طرز پر ہوگا۔متوافق ریاستوں اور مرکز کے درمیان اختیارات کی تقسیم جس طرح کی جاتی ہے، متوافق قوموں کے درمیان وہ اس سے مختلف طریقے پر ہوگی۔پہلی چیز کو ہندوستان میں صوبائی خوداختیاری سے تعبیر کیا گیا ہے ۔دوسری چیز کو ہم تہذیبی خود اختیاری(CULTURAL AUTONOMY)سے تعبیر کرتے ہیں، اس کے بنیادی اصول بھی انھوں نے متعین کر دیئے جن کی تفصیل ہماری کتاب ’’آفتاب علم و عرفان مولانا ابوالاعلیٰ مودودی‘‘ میں درج ہے۔
دوسرا خاکہ:۔اگر بین الاقوامی وفاق کی یہ صورت قبول نہ کی جائے تو دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ مختلف قوموں کے الگ الگ حدودِ اراضی مقرر کردیئے جائیں جہاں وہ اپنی جمہوری سٹیٹ بنا سکیں۔ 25سال یا اس سے کچھ کم وبیش مدت تبادلہ آبادی کے لئے مقرر کردی جائے۔ سٹیٹ کو زیادہ سے زیادہ اندرونی خودمختاری دی جائے اور وفاقی مرکز کے اختیارات کم ازکم رکھے جائیں۔ اس صورت میں ہم غیر مسلم ریاستوں کے ساتھ مل کر ایک وفاقی سٹیٹ بنانے پر نہ صرف راضی ہوجائیں گے بلکہ اس کو ترجیح دیں گے۔
میرے دوست ڈاکٹر عبدالطیف صاحب نے حال ہی میں ہندوستان کے تہذیبی مستقبل (CULTRAL FUTURE OF INDIA) پر جو مقالہ حیدر آباد سے شائع کیا ہے وہ ہندوستان کی مختلف قوموں کے درمیان حدودِ اراضی کی تقسیم کا بہترین نقشہ پیش کرتا ہے، یہ ایک منصفانہ تقسیم ہے جس کی رو سے مشرقی بنگال، حیدر آباد، بھوپال، جونا گڑھ، جاورہ، ٹونک، اجمیر، دہلی، شمالی و مغربی پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان کے حلقے مسلمانوں کے لیے مخصوص ہو جاتے ہیں۔ اس طرح یہ ممکن ہے کہ 25 سال کی مدت میں ہندوستان کے دوسرے خطوں سے ہجرت کر کے مسلمان ان حلقوں میں چلے جائیں، بقیہ ہندوستان میں اگر اچھوت اپنی الگ قومیت بنانا چاہیں تو ان کے لیے بلحاظ ان کی آبادی کے مستقل رقبے مخصوص کیے جا سکتے ہیں بشرطیکہ گاندھی جی خود کشی کی دھمکی دے کر ان کی آزادی رائے کو پھر نہ سلب فرمائیں۔ اسی طرح سکھوں کو بھی ان کی آبادی کے لحاظ سے ایک رتبہ دیا جا سکتا ہے۔
تیسرا خاکہ:اگر یہ صورت بھی منظور نہ ہو تو پھر بطور آخر ہم یہ مطالبہ کریں گے کہ ہماری قومی ریاستیں الگ بنائی جائیں، اور ان کا علیحدہ وفاق ہو، اس طرح ہندو ریاستوں کا بھی ایک جداگانہ وفاق ہو اور پھر ان دو یا زائدہ وفاقی مملکتوں کے درمیان ایک طرح کا تحائف (CONFEDERACY) ہو جائے جس میں مخصوص اغراض مثلاً دفاع اور مواصلات اور تجارتی تعلقات کے لیے مقرر شرائط پر تعاون ہو سکے۔
مولانا ابو الا علیٰ مودودیؒ کے اس پلان کو پڑھنے کے بعد یہ بات تاریخی طور پرثابت ہو جاتی ہے کہ تقسیم ہند اور دو قومی نظریہ کی تشکیل کی بنیاد میں ان کا اہم کردار ہے۔ جہاں تک کانگریس اور اس کی ریشہ دوانیوں کی بات ہے، مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ مسلم لیگ اور قائد اعظم محمد علی جناح ؒ سے پہلے ہی ان کو پہچان چکے تھے۔ میرا خیال ہے کہ سید مودودیؒ نے جس طرح کانگریس کے اصل چہرے کو بے نقاب کیا اس طرح برصغیر کا کوئی لیڈر یہ فریضہ سرانجام نہ دے سکا۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی وفات کے بعد نفاذ اسلام سے خوف زدہ مغرب نواز اور کمیونسٹ افراد نے مولانا مودودی ؒ پر الزامات لگائے کہ وہ کانگریس کے حامی تھے۔ اس سے بڑا کذب اورالزام کیا ہوسکتا ہے ؟ اس جھوٹی اور بے بنیاد مہم کا نتیجہ ہے کہ آج بھی بے شمار پاکستانی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کو کانگریس کاحامی اور پاکستان کا مخالف سمجھتے ہیں حالانکہ یہ حقیقت کے برعکس، سراسر بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی پراپیگنڈہ ہے۔
جہاں تک کانگریس اور متحدہ ہندوستان کے حماتیوں کا تعلق ہے مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ان کو بے نقاب کرنے کے لیے مسلسل کئی برسوں تک قلمی جہاد کیا۔ جس کی تفصیل میری کتاب میں موجود ہے۔ یہاں صرف ایک اقتباس پر اکتفا کرتا ہوں، مولانا لکھتے ہیں:
کانگریس اور مہا سبھا۔ ’’فطری حیثیت سے دونوں میں نہ پہلے فرق تھا نہ آج ہے۔ دونوں وطنی قومیت کی علمبردار ہیں، دونوں ملک میں قوموں کے امتیازی وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہیں، دونوں علیحدگی کے ہر رحجان کی دشمن ہیں حتیٰ کہ کسی معاملہ میں وہ مسلمانوں کے جداگانہ مفاد کا نام تک سننے کی روادار نہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کانگریس جہاں ’’ہندوستان‘‘ کالفظ استعمال کرتی ہے وہاں مہاسبھا ہندوئوں کا لفظ استعمال کرتی ہے مگر معنی دونوں کے ایک ہیں۔ ان دونوں جماعتوں میں اب اگر کوئی فرق باقی ہے توہ صرف یہ ہے کہ ایک ہندو مہاسبھاہے اور دوسری انڈین نیشنل کانگریس۔ مہاسبھا صریح طور پر ہندئوں کی جماعت ہے۔ کوئی مسلمان اس میں شریک نہیں ہوسکتا۔ نہ وہ مسلمانوں کو اپنی طرف دعوت دے سکتی ہے نہ مسلمانوں میں جاکر ماس کانٹکٹ کر سکتی ہے، نہ اس کو مولانا ابو الکلام کی خدمات حاصل ہوسکتی ہیں کہ مسلمانوں کی جماعت میں کمزور کیریکٹر کے آدمیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر لائیں اور اس کے آستانہ پر جھکا دیں، نہ اسے ڈاکٹر ذاکر حسین کی خدمات میسر آسکتی ہیں کہ واردھا اسکیم تیار کریں، نہ وہ خان عبدالغفار خان سے کام لے سکتی ہے ۔
قیام پاکستان کے بعد مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ان تمام الزمات کو رد کرتے ہوئے خود کہا تھا۔
’’کہا جاتا ہے کہ یہ جماعت در پردہ کانگریسیوں کی جماعت ہے اور اکھنڈ ہندوستان کی حامی ہے اور یہ لوگ آخر تک پاکستان کے مخالف رہے ہیں۔ یہ تمام باتیں سپید جھوٹ ہیں۔ آج ملک میں ہزاروں بلکہ لاکھوںآدمی ایسے موجود ہیں جنہوں نے ہمارے لٹریچر کا مطالعہ کیا ہے۔ خصوصاً ’’سیاسی کشمکش حصہ اول ودوم‘‘ اور ’’مسئلہ قومیت‘‘ جنہوں نے پڑھی ہیں وہ جانتے ہیں کہ جس وقت آج کے بڑے بڑے مخالفین کانگریس کو کانگریسی تحریک کے نقصانات اور متحدہ قومیت کی غلطیوں کا ہوش تک نہیں تھا اس وقت میں نے مسلمانوں کو ان سے آگاہ کیا اور متحدہ قومیت کی رو میں بہنے سے مسلمانوں کو روکنے میں میری کوششوں کا دخل اگر کسی سے زیادہ نہیں توکسی سے کم بھی نہیں۔ پھر آج بجزناواقف لوگوں کے اور کون اس جھوٹ کو باورکرے گا کہ میں کانگریس اور اس کی وطنی قومیت کے ساتھ کوئی تعلق رکھتا ہوں ۔‘‘ (مولانا مودودیؒ کی تقاریر حصہ دوم از ثروت وصولت)
یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ مولانا کی تحریروں کو پمفلٹ کی صورت میں شائع کر کے مسلم لیگ اپنے جلسوں اور جلوسوں میں بانٹتی تھی تاکہ دو قومی نظریہ کا صحیح ادراک قوم کو ہو اور مسلمان کانگریس کے اصل چہرے کو پہچان سکیں، تحریک پاکستان میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے کردار کو نمایاں کرنا اور نصاب میں شامل کرنا از حد ضروری ہے، اس کام کو ’’جماعت اسلامی‘‘ نے پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا کیونکہ وہی مودودیؒ کی فکر کی وارث ہے۔
اگر مولانا مودودیؒ کی خدمات کو نئی نسل تک پہنچایا جائے تو نئی نسل میں انقلابی تبدیلی پیدا ہو سکتی ہے۔