مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ
یہ تقریر لاہور میں شیعہ سنی حضرات کی ایک مشترکہ نشست میں کی گئی تھی‘ جو ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ لاہور کی اشاعت ماہ جولائی ۱۹۶۰ء میں شائع ہوئی۔ اس کو افادہ عام کی خاطر کتابی شکل میں پیش کیا جارہا ہے۔۔۔ ناشر
مقصد شہادت
ہر سال محرم میں کروڑوں مسلمان شیعہ بھی اور سنی بھی‘ امام حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ ان غمگساروں میں سے بہت ہی کم لوگ اس مقصد کی طرف توجہ کرتے ہیں‘ جس کے لیے امام نے نہ صرف اپنی جان عزیز قربان کی بلکہ اپنے کنبے کے بچوں تک کو کٹوا دیا۔ کسی شخص کی مظلومانہ شہادت پر اس کے اہلِ خاندان کا‘ اور اس خاندان سے محبت و عقیدت یا ہمدردی رکھنے والوں کا اظہارِ غم کرنا تو ایک فطری بات ہے۔ ایسا رنج و غم دنیا کے ہر خاندان اور اس سے تعلق رکھنے والوں کی طرف سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس کی کوئی اخلاقی قدر و قیمت اس سے زیادہ نہیں کہ اس شخص کی ذات کے ساتھ اس کے رشتہ داروں کی اور خاندان کے ہمدردوں کی محبت کا ایک فطری نتیجہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امام حسینؓ کی وہ کیا خصوصیت ہے جس کی وجہ سے تیرہ سو برس گزر جانے پر بھی ہر سال ان کا غم تازہ ہوتا رہے؟ اگر یہ شہادت کسی مقصدِ عظیم کے لیے نہ تھی تو محض ذاتی محبت و تعلق کی بنا پر صدیوں اس کا غم جاری رہنے کے کوئی معنی نہیں ہیں اور خود امام کی اپنی نگاہ میں اس محض ذاتی و شخصی محبت کی کیا قدر و قیمت ہو سکتی ہے؟ انہیں اگر اپنی ذات اس مقصد سے زیادہ عزیز ہوتی تو وہ اسے قربان ہی کیوں کرتے؟ ان کی یہ قربانی تو خود اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس مقصد کو جان سے بڑھ کر عزیز رکھتے تھے۔ لہٰذا اگر ہم اس مقصد کے لیے کچھ نہ کریں‘ بلکہ اس کے خلاف کام کرتے رہیں‘ تو محض ان کی ذات کے لیے گریہ و زاری کر کے‘ اور ان کے قاتلوں پر لعن طعن کر کے قیامت کے روز نہ تو ہم امام ہی سے کسی داد کی امید رکھ سکتے ہیں اور نہ یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ ان کا خدا اس کی کوئی قدر کرے گا۔
اب دیکھنا چاہیے کہ وہ مقصد کیا تھا؟ کیا امام تخت و تاج کے لیے اپنے کسی ذاتی استحقاق کا دعویٰ رکھتے تھے اور اس کے لیے انہوں نے سر دھڑ کی بازی لگائی؟ کوئی شخص بھی جو امام حسینؓ کے گھرانے کی بلند اخلاقی سیرت کو جانتا ہے‘ یہ بدگمانی نہیں کر سکتا کہ یہ لوگ اپنی ذات کے لیے اقتدار حاصل کرنے کی خاطر مسلمانوں میں خوں ریزی کر سکتے تھے۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے ان لوگوں کا نظریہ ہی صحیح مان لیا جائے جن کی رائے میں یہ خاندان حکومت پر اپنے ذاتی استحقاق کا دعویٰ رکھتا تھا‘ تب بھی حضرت ابو بکرؓ سے لے کر امیر معاویہؓ تک‘ پچاس برس کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ حکومت حاصل کرنے کے لیے لڑنا اور کشت و خون کرنا ہرگز ان کا مسلک نہ تھا۔ اس لیے لامحالہ یہ ماننا ہی پڑے گا کہ امام عالی مقام کی نگاہیں اس وقت مسلم معاشرے اور اسلامی ریاست کی روح اور اس کے مزاج اور اس کے نظام میں کسی بڑے تغیر کے آثار دیکھ رہی تھیں‘ جسے روکنے کی جدوجہد کرنا ان کے نزدیک ضروری تھا‘ حتیٰ کہ اس راہ میں لڑنے کی نوبت بھی آجائے تو وہ نہ صرف اسے جائز بلکہ فرض سمجھتے تھے۔
ریاست کے مزاج‘ مقصد اور دستور کی تبدیلی
وہ تغیر کیا تھا؟ ظاہر ہے کہ لوگوں نے اپنا دین نہیں بدل دیا تھا۔ حکمرانوں سمیت سب لوگ خدا اور رسولؐ اور قرآن کو اسی طرح مان رہے تھے‘ جس طرح پہلے مانتے تھے۔ مملکت کا قانون بھی نہیں بدلا تھا۔ عدالتوں میں قرآن اور سنت ہی کے مطابق تمام معاملات کے فیصلے بنی اُمیّہ کی حکومت میں بھی ہو رہے تھے‘ جس طرح ان کے برسرِ اقتدار آنے سے پہلے ہوا کرتے تھے۔ بلکہ قانون میں تغیر تو انیسویں صدی عیسوی سے پہلے دنیا کی مسلم حکومتوں میں سے کسی کے دور میں بھی نہیں ہوا۔ بعض لوگ یزید کے شخصی کردار کو بہت نمایاں کر کے پیش کرتے ہیں‘ جس سے یہ عام غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے کہ وہ تغیر جسے روکنے کے لیے امام کھڑے ہوئے تھے‘ بس یہ تھا کہ ایک برا آدمی برسرِ اقتدار آگیا تھا۔ لیکن یزید کی سیرت و شخصیت کا جو برے سے برا تصور پیش کرنا ممکن ہے‘ اسے جوں کا توں مان لینے کے بعد بھی یہ بات قابلِ تسلیم نہیں ہے کہ اگر نظام صحیح بنیادوں پر قائم ہو تو محض ایک برے آدمی کا برسرِ اقتدار آجانا کوئی ایسی بڑی بات ہو سکتی ہے‘ جس پر امام حسینؓ جیسا دانا و زیرک اور علم شریعت میں گہری نظر رکھنے والا شخص بے صبر ہو جائے۔ اس لیے یہ شخصی معاملہ بھی وہ اصل تغیر نہیں ہے‘ جس نے امام کو بے چین کیا تھا۔ تاریخ کے غائر مطالعہ سے جو چیز واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ یزید کی ولی عہدی اور پھر اس کی تخت نشینی سے دراصل جس خرابی کی ابتدا ہو رہی تھی‘ وہ اسلامی ریاست کے دستور اور اس کے مزاج اور اس کے مقصد کی تبدیلی تھی۔ اس تبدیلی کے پورے نتائج اگرچہ اس وقت سامنے نہ آئے تھے لیکن ایک صاحبِ نظر آدمی گاڑی کا رخ تبدیل ہوتے ہی یہ جان سکتا ہے کہ اب اس کا راستہ بدل رہا ہے اور جس راہ پر یہ مڑ رہی ہے وہ آخرکار اسے کہاں لے جائے گا۔ یہی رخ کی تبدیلی تھی جسے امام نے دیکھا اور گاڑی کو پھر سے صحیح پٹڑی پر ڈالنے کے لیے اپنی جان لڑا دینے کا فیصلہ کیا۔
نقطہ انحراف
اس چیز کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور خلفاء راشدینؓ کی سربراہی میں ریاست کا جو نظام چالیس سال تک چلتا رہا تھا‘ اس کے دستور کی بنیادی خصوصیات کیا تھیں اور یزید کی ولی عہدی سے مسلمانوں میں جس دوسرے نظامِ ریاست کا آغاز ہوا‘ اس کے اندر کیا خصوصیات دولت بنی امیہ و بنی عباس اور بعد کی بادشاہیوں میں ظاہر ہوئیں۔ اسی تقابل سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ یہ گاڑی پہلے کس لائن پر چل رہی تھی اور اس نقطۂ انحراف پر پہنچ کر آگے وہ کس لائن پر چل پڑی‘ اور اسی تقابل سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جس شخص نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور سیدہ فاطمہؓ اور حضرت علیؓ کی آغوش میں تربیت پائی تھی اور جس نے صحابہؓ کی بہترین سوسائٹی میں بچپن سے بڑھاپے تک کی منزلیں طے کی تھیں‘ وہ کیوں اس نقطہ انحراف کے سامنے آتے ہی گاڑی کو نئی لائن پر جانے سے روکنے کے لیے کھڑا ہو گیا‘ اور کیوں اس نے اس بات کی بھی پروا نہ کی کہ اس زور دار گاڑی کا رخ موڑنے کے لیے اس کے آگے کھڑے ہو جانے کا کیا نتیجہ ہو سکتا ہے؟
انسانی بادشاہی کا آغاز
اسلامی ریاست کی اولین خصوصیت یہ تھی کہ اس میں صرف زبان ہی سے یہ نہیں کہا جاتا تھا بلکہ سچے دل سے یہ مانا بھی جاتا تھا‘ اور عملی رویہ سے اس عقیدہ و یقین کا پورا ثبوت بھی دیا جاتا تھا کہ ملک خدا کا ہے‘ باشندے خدا کی رعیت ہیں اور حکومت اس رعیت کے معاملے میں خدا کے سامنے جوابدہ ہے۔ حکومت اس رعیت کی مالک نہیں ہے۔ اور رعیت اس کی غلام نہیں ہے۔ حکمرانوں کا کام سب سے پہلے اپنی گردن میں خدا کی بندگی و غلامی کا قلاوہ ڈالنا ہے‘ پھر یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ خدا کی رعیت پر اس کا قانون نافذ کریں۔ لیکن یزید کی ولی عہدی سے جس انسانی بادشاہی کا مسلمانوں میں آغاز ہوا‘ اس میں خدا کی بادشاہی کا تصور صرف زبانی اعتراف تک محدود رہ گیا۔ عملاً اس نے وہی نظریہ اختیار کر لیا جو ہمیشہ سے ہر انسانی بادشاہی کا رہا ہے‘ یعنی ملک بادشاہ اور شاہی خاندان کا ہے اور وہ رعیت کی جان‘ مال‘ آبرو‘ ہر چیز کا مالک ہے۔ خدا کا قانون ان بادشاہتوں میں نافذ ہوا بھی تو صرف عوام پر ہوا‘ بادشاہ اور ان کے خاندان اور امراء اور حکام زیادہ تر اس سے مستثنیٰ ہی رہے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا تعطل
اسلامی ریاست کا مقصد خدا کی زمین میں ان نیکیوں کو قائم کرنا اور فروغ دینا تھا‘ جو خدا کو محبوب ہیں اور ان برائیوں کو دبانا اور مٹانا تھا جو خدا کو ناپسند ہیں۔ مگر انسانی بادشاہت کا راستہ اختیار کرنے کے بعد حکومت کا مقصد فتح ممالک اور تسخیر خلائق اور تحصیل باج و خراج اور عیش دنیا کے سوا کچھ نہ رہا۔ خدا کا کلمہ بلند کرنے کی خدمت بادشاہوں نے کم ہی کبھی انجام دی۔ ان کے ہاتھوں اور ان کے امرا اور حکام اور درباریوں کے ہاتھوں بھلائیاں کم اور برائیاں بہت زیادہ پھیلیں۔ بھلائیوں کے فروغ اور برائیوں کی روک تھام اور اشاعتِ دین اور علومِ اسلامی کی تحقیق و تدوین کے لیے جن اﷲ کے بندوں نے کام کیا‘ انہیں حکومت سے مدد ملنی تو درکنار اکثر وہ حکمرانوں کے غضب ہی میں گرفتار رہے اور اپنا کام وہ ان کی مزاحمتوں کے علی الرغم ہی کرتے رہے۔ ان کی کوششوں کے برعکس حکومتوں اور ان کے حکام و متوسلین کی زندگیوں اور پالیسیوں کے اثرات مسلم معاشرے کو پیہم اخلاقی زوال ہی کی طرف لے جاتے رہے۔ حد یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے مفاد کی خاطر اسلام کی اشاعت میں رکاوٹیں ڈالنے سے بھی دریغ نہ کیا‘ جس کی بدترین مثال بنو امیہ کی حکومت میں نومسلموں پر جزیہ لگانے کی صورت میں ظاہر ہوئی۔
اسلامی ریاست کی روح تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیزگاری کی روح تھی‘ جس کا سب سے بڑا مظہر خود ریاست کا سربراہ ہوتا تھا۔ حکومت کے عمال اور قاضی اور سپہ سالار‘ سب اس روح سے سرشار ہوتے تھے اور پھر اس روح سے وہ پورے معاشرے کو سرشار کرتے تھے‘ لیکن بادشاہی کی راہ پر پڑتے ہی مسلمانوں کی حکومتوں اور ان کے حکمرانوں نے قیصر و کسریٰ کے سے رنگ ڈھنگ اور ٹھاٹھ باٹھ اختیار کر لیے۔ عدل کی جگہ ظلم و جور کا غلبہ ہوتا چلا گیا۔ پرہیزگاری کی جگہ فسق و فجور اور راگ رنگ اور عیش و عشرت کا دور دورہ شروع ہو گیا۔ حرام و حلال کی تمیز سے حکمرانوں کی سیرت و کردار خالی ہوتی چلی گئی۔ سیاست کا رشتہ اخلاق سے ٹوٹتا چلا گیا۔ خدا سے خود ڈرنے کی بجائے حاکم لوگ بندگانِ خدا کو اپنے آپ سے ڈرانے لگے اور لوگوں کے ایمان و ضمیر بیدار کرنے کے بجائے ان کو اپنی بخششوں کے لالچ سے خریدنے لگے۔
اسلامی دستور کے بنیادی اصول
یہ تو تھا روح و مزاج اور مقصد اور نظریے کا تغیر۔ ایسا ہی تغیر اسلامی دستور کے بنیادی اصولوں میں بھی رونما ہوا۔ اس دستور کے سات اہم ترین اصول تھے‘ جن میں سے ہر ایک کو بدل ڈالا گیا۔
۱۔ آزادانہ انتخاب
دستورِ اسلامی کا سنگِ بنیاد یہ تھا کہ حکومت لوگوں کی آزادانہ رضا مندی سے قائم ہو۔ کوئی شخص اپنی کوشش سے اقتدار حاصل نہ کرے بلکہ لوگ اپنے مشورے سے بہتر آدمی کو چن کر اقتدار اس کے سپرد کر دیں۔ بیعت اقتدار کا نتیجہ نہ ہو بلکہ اس کا سبب ہو۔ بیعت حاصل ہونے میں آدمی کی اپنی کسی کوشش یا سازش کا دخل نہ ہو۔ لوگ بیعت کرنے یا نہ کرنے کے معاملے میں پوری طرح آزاد ہوں۔ جب تک کسی شخص کو بیعت حاصل نہ ہو وہ برسرِ اقتدار نہ آئے اور جب لوگوں کا اعتماد اس پر سے اٹھ جائے تو وہ اقتدار سے چمٹا نہ رہے۔ خلفائےؓ راشدین میں سے ہر ایک اسی قاعدے کے مطابق برسرِ اقتدار آیا تھا۔ امیر معاویہؓ کے معاملے میں پوزیشن مشتبہ ہو گئی۔ اسی لیے صحابی کے باوجود ان کا شمار خلفائے راشدینؓ میں نہیں کیا گیا۔ لیکن آخرکار یزید کی ولی عہدی وہ انقلابی کارروائی ثابت ہوئی جس نے اس قاعدے کو الٹ کر رکھ دیا۔ اس سے خاندانوں کی موروثی بادشاہتوں کا وہ سلسلہ شروع ہوا‘ جس کے بعد سے آج تک پھر مسلمانوں کو انتخابی خلافت کی طرف پلٹنا نصیب نہ ہو سکا۔ اب لوگ مسلمانوں کے آزادانہ اور کھلے مشورے سے نہیں بلکہ طاقت سے برسرِ اقتدار آنے لگے۔ اب بیعت سے اقتدار حاصل ہونے کی بجائے اقتدار سے بیعت حاصل کی جانے لگی۔ اب بیعت کرنے یا نہ کرنے میں لوگ آزاد نہ رہے اور بیعت کا حاصل ہونا اقتدار پر قائم رہنے کے لیے شرط نہ رہا۔ لوگوں کی اول تو یہ مجال نہ تھی کہ جس کے ہاتھ میں اقتدار تھا‘ اس کی بیعت نہ کرتے۔ لیکن اگر وہ بیعت نہ بھی کرتے تو جس کے ہاتھ میں اقتدار آ گیا تھا‘ وہ ہٹنے والا نہ تھا۔ اسی جبری بیعت کو کالعدم قرار دینے کا قصور جب منصور عباسی کے زمانہ میں امام مالکؓ سے سرزد ہوا تو ان کی پیٹھ پر کوڑے برسائے گئے اور ان کے ہاتھ شانوں سے اکھڑوا دیے گئے۔
۲۔ شورائی نظام
دوسرا اہم ترین قاعدہ اس دستور کا یہ تھا کہ حکومت مشورے سے کی جائے اور مشورہ ان بزرگوں سے کیا جائے جن کے علم‘ تقویٰ اور اصابتِ رائے پر عام لوگوں کو اعتماد ہو۔ خلفائے راشدینؓ کے عہد میں جو لوگ شوریٰ کے رکن بنائے گئے‘ اگرچہ ان کو انتخاب عام کے ذریعہ سے منتخب نہیں کرایا گیا تھا۔ جدید زمانے کے تصور کے لحاظ سے وہ نامزد کردہ لوگ ہی تھے۔ لیکن خلفاءؓ نے یہ دیکھ کر ان کو مشیر نہیں بنایا تھا کہ یہ ہماری ہاں میں ہاں ملانے اور ہمارے مفاد کی خدمت کرنے کے لیے موزوں ترین لوگ ہیں۔ بلکہ انہوں نے پورے خلوص اور بے غرضی کے ساتھ قوم کے بہترین عناصر کو چنا تھا‘ جن سے وہ حق گوئی کے سوا کسی چیز کی توقع نہ رکھتے تھے‘ جن سے یہ امید تھی کہ وہ ہر معاملے میں اپنے علم و ضمیر کے مطابق بالکل صحیح ایماندارانہ رائے دیں گے‘ جن سے کوئی شخص بھی یہ اندیشہ نہ رکھتا تھا کہ وہ حکومت کو کسی غلط راہ پر جانے دیں گے۔ اگر اس وقت ملک میں آج کل کے طریقے کے مطابق انتخابات بھی ہوتے تو عام مسلمان انہی لوگوں کو اپنے اعتماد کا مستحق قرار دیتے۔ لیکن شاہی دور کا آغاز ہوتے ہی شوریٰ کا یہ طریقہ بدل گیا۔ اب بادشاہ استبداد اور مطلق العنانی کے ساتھ حکومت کرنے لگے۔ اب شاہزادے اور خوشامدی اہل دربار‘ اور صوبوں کے گورنر اور فوجوں کے سپہ سالار ان کی کونسل کے ممبر تھے۔ اب وہ لوگ ان کے مشیر تھے‘ جن کے معاملہ میں اگر قوم کی رائے لی جاتی تو اعتماد کے ایک ووٹ کے مقابلہ میں لعنت کے ہزار ووٹ آتے اور اس کے برعکس وہ حق شناس و حق گو اہل علم و تقویٰ جن پر قوم کو اعتماد تھا‘ وہ بادشاہوں کی نگاہ میں کسی اعتماد کے مستحق نہ تھے‘ بلکہ الٹے معتوب یا کم از کم مشتبہ تھے۔
۳۔ اظہارِ رائے کی آزادی
اس دستور کا تیسرا اصول یہ تھا کہ لوگوں کو اظہارِ رائے کی پوری آزادی ہو۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو اسلام نے ہر مسلمان کا حق ہی نہیں بلکہ فرض قرار دیا تھا۔ اسلامی معاشرے اور ریاست کے صحیح راستہ پر چلنے کا انحصار اس بات پر تھا کہ لوگوں کے ضمیر اور ان کی زبانیں آزاد ہوں‘ وہ ہر غلط کام پر بڑے سے بڑے آدمی کو ٹوک سکیں اور حق بات برملا کہہ سکیں۔ خلافت راشدہ میں صرف یہی نہیں کہ لوگوں کا یہ حق پوری طرح محفوظ تھا‘ بلکہ خلفائے راشدینؓ اسے ان کا فرض سمجھتے تھے اور اس فرض کے ادا کرنے میں ان کی ہمت افزائی کرتے تھے۔ ان کی مجلسِ شوریٰ کے ممبروں ہی کو نہیں‘ قوم کے ہر شخص کو بولنے اور ٹوکنے اور خود خلیفہ سے باز پرس کرنے کی مکمل آزادی تھی‘ جس کے استعمال پر لوگ ڈانٹ اور دھمکی سے نہیں بلکہ داد اور تعریف سے نوازے جاتے تھے۔ یہ آزادی ان کی طرف سے کوئی عطیہ اور بخشش نہ تھی جس کے لیے وہ قوم پر اپنا احسان جتاتے‘ بلکہ یہ اسلام کا عطا کردہ ایک دستوری حق تھا‘ جس کا احترام کرنا وہ اپنا فرض سمجھتے تھے‘ اور اسے بھلائی کے لیے استعمال کرنا ہر مسلمان پر خدا اور رسولؐ کا عائد کردہ ایک فریضہ تھا‘ جس کی ادائیگی کے لیے معاشرے اور ریاست کی فضا کو ہر وقت سازگار رکھنا ان کی نگاہ میں فرائضِ خلافت کا ایک اہم جز تھا۔ لیکن بادشاہی دور کا آغاز ہوتے ہی ضمیروں پر قفل چڑھا دیے گئے اور منہ بند کر دیے گئے۔ اب قاعدہ یہ ہو گیا کہ زبان کھولو تو تعریف میں کھولو‘ ورنہ چپ رہو۔ اور اگر تمہارا ضمیر ایسا زور آور ہے کہ حق گوئی سے تم باز نہیں رہ سکتے تو قید یا قتل کے لیے تیار ہو جائو۔ یہ پالیسی رفتہ رفتہ مسلمانوں کو پست ہمت‘ بزدل اور مصلحت پرست بناتی چلی گئی۔ خطرہ مول لے کر سچی بات کہنے والے ان کے اندر کم سے کم ہوتے چلے گئے۔ خوشامد اور چاپلوسی کی قیمت مارکیٹ میں چڑھتی اور حق پرستی و راست بازی کی قیمت گرتی چلی گئی۔ اعلیٰ قابلیت رکھنے والے ایماندار اور آزاد خیال لوگ حکومت سے بے تعلق ہو گئے اور عوام کا حال یہ ہو گیا کہ کسی شاہی خاندان کی حکومت برقرار رکھنے کے لیے ان کے دلوں میں کوئی جذبہ باقی نہ رہا۔ ایک کو ہٹانے کے لیے جب دوسرا آیا تو انہوںنے مدافعت میں انگلی تک نہ ہلائی اور گرنے والا جب گرا تو انہوں نے ایک لات اور رسید کر کے اسے زیادہ گہرے گڑھے میں پھینکا۔ حکومتیں جاتی اور آتی رہیں‘ مگر لوگوں نے تماشائی سے بڑھ کر اس آمد و رفت کے منظر سے کوئی دلچسپی نہ لی۔
۴۔ خدا اور خلق کے سامنے جواب دہی
چوتھا اصول‘ جو اس تیسرے اصول کے ساتھ لازمی تعلق رکھتا تھا‘ یہ تھا کہ خلیفہ اور اس کی حکومت خدا اور خلق دونوں کے سامنے جواب دہ ہے۔ جہاں تک خدا کے سامنے جواب دہی کا تعلق ہے‘ اس کے شدید احساس سے خلفائے راشدین پر دن کا چین اور رات کا آرام حرام ہو گیا تھا اور جہاں تک خلق کے سامنے جواب دہی کا تعلق ہے‘ وہ ہر وقت‘ ہر جگہ اپنے آپ کو عوام کے سامنے جواب دہ سمجھتے تھے۔ ان کی حکومت کا یہ اصول نہ تھا کہ صرف مجلسِ شوریٰ (پارلیمنٹ) میں نوٹس دے کر ہی ان سے سوال کیا جاسکتا ہے‘ وہ ہر روز پانچ مرتبہ نماز کی جماعت میں اپنے عوام کا سامنا کرتے تھے۔ وہ ہر ہفتے جمعہ کی جماعت میں عوام کے سامنے اپنی کہتے اور ان کی سنتے تھے۔ وہ شب و روز بازاروں میں کسی باڈی گاڑد کے بغیر‘ کسی ہٹو بچو کی آواز کے بغیر عوام کے درمیان چلتے پھرتے تھے۔ ان کے گورنمنٹ ہائوس (یعنی ان کے کچے مکان) کا دروازہ ہر شخص کے لیے کھلا تھا اور ہر ایک ان سے مل سکتا تھا۔ ان سب مواقع پر ہر شخص ان سے سوال کر سکتا تھا اور جواب طلب کر سکتا تھا۔ یہ محدود جواب دہی نہ تھی بلکہ کھلی اور ہمہ وقتی جواب دہی تھی۔ یہ نمائندوں کے واسطہ سے نہ تھی بلکہ پوری قوم کے سامنے براہِ راست تھی۔ وہ عوام کی مرضی سے برسرِ اقتدار آئے تھے اور عوام کی مرضی انہیں ہٹا کر دوسرا خلیفہ ہر وقت لاسکتی تھی۔ اس لیے نہ تو انہیں عوام کا سامنا کرنے میں کوئی خطرہ محسوس ہوتا تھا اور نہ اقتدار سے محروم ہونا ان کی نگاہ میں کوئی خطرہ تھا کہ وہ اس سے بچنے کی کبھی فکر کرتے۔ لیکن بادشاہی دور کے آتے ہی جواب دہ حکومت کا تصور ختم ہو گیا۔ خدا کے سامنے جواب دہی کا خیال چاہے زبانوں پر رہ گیا ہو‘ مگر عمل میں اس کے آثار کم ہی نظر آتے ہیں۔ رہی خلق کے سامنے جوابدہی‘ تو کون مائی کا لال تھا جو ان سے جواب طلب کر سکتا۔ وہ اپنی قوم کے فاتح تھے۔ مفتوحوں کے سامنے کون فاتح جواب دہ ہوتا ہے۔ وہ طاقت سے برسرِ اقتدار آئے تھے اور ان کا نعرہ یہ تھا کہ جس میں طاقت ہو وہ ہم سے اقتدار چھین لے۔ ایسے لوگ عوام کا سامنا کب کیا کرتے ہیں اور عوام ان کے قریب کہاں پھٹک سکتے تھے۔ وہ نماز بھی پڑھتے تھے تو نتھو خیرے کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے محلوں کی محفوظ مسجدوں میں‘ یا باہر اپنے نہایت قابل اعتماد محافظوں کے جھرمٹ میں۔ ان کی سواریاں نکلتی تھیں تو آگے اور پیچھے مسلح دستے ہوتے تھے اور راستے صاف کر دیے جاتے تھے۔ عوام کی اور ان کی مڈ بھیڑ کسی جگہ ہوتی ہی نہ تھی۔
۵۔ بیت المال۔ ایک امانت
پانچواں اصول اسلامی دستور کا یہ تھا کہ بیت المال خدا کا مال اور مسلمانوں کی امانت ہے‘ جس میں کوئی چیز حق کی راہ کے سوا کسی دوسری راہ سے آنی نہ چاہیے اور جس میں سے کوئی چیز حق کے سوا کسی دوسری راہ میں جانی نہ چاہیے۔ خلیفہ کا حق اس مال میں اتنا ہی ہے جتنا قرآن کی رو سے مال یتیم میں اس کے ولی کا ہوتا ہے کہ من کان غنیا فلیستعفف ومن کان فقیرا فلیا کل بالمعروف (جو اپنے ذاتی ذرائع آمدنی اپنی ضرورت بھر رکھتا ہو‘ وہ اس مال سے تنخواہ لیتے ہوئے شرم کرے اور جو واقعی حاجت مند ہو وہ اتنی تنخواہ لے جسے ہر معقول آدمی مبنی برانصاف مانے)۔ خلیفہ اس کی ایک ایک پائی کے آمد و خرچ پر حساب دینے کا ذمہ دار ہے اور مسلمانوں کو اس سے حساب مانگنے کا پورا حق ہے۔ خلفائے راشدینؓ نے اس اصول کو بھی کمال درجہ دیانت اور حق شناسی کے ساتھ برت کر دکھایا۔ ان کے خزانے میں جو کچھ بھی آتا تھا‘ ٹھیک ٹھیک اسلامی قانون کے مطابق آتا تھا اور اس میں سے جو کچھ خرچ ہوتا تھا‘ بالکل جائز راستوں میں ہوتا تھا۔ ان میں سے جو غنی تھا‘ اس نے ایک حبہ اپنی ذات کے لیے تنخواہ کے طور پر وصول کیے بغیر مفت خدمت انجام دی‘ بلکہ اپنی گرہ سے قوم کے لیے خرچ کرنے میں بھی دریغ نہ کیا اور جو تنخواہ کے بغیر ہمہ وقتی خدمت گار نہ بن سکتے تھے۔ انہوں نے اپنی ضروریاتِ زندگی کے لیے اتنی کم تنخواہ لی کہ ہر معقول آدمی اسے انصاف سے کم ہی مانے گا‘ زیادہ کہنے کی جرأت ان کا دشمن بھی نہیں کر سکتا۔ پھر اس خزانے کی آمد و خرچ کا حساب ہر وقت ہر شخص مانگ سکتا تھا اور وہ ہر وقت ہر شخص کے سامنے حساب دینے کے لیے تیار تھے۔ ان سے ایک عام آدمی بھرے مجمع میں پوچھ سکتا تھا کہ خزانے میں یمن سے جو چادریں آئی ہیں‘ ان کا طول و عرض تو اتنا نہ تھا کہ جناب کا یہ لمبا کرتہ بن سکے‘ یہ زائد کپڑا آپ کہاں سے لائے ہیں؟ مگر جب خلافت بادشاہی میں تبدیل ہوئی تو خزانہ خدا اور مسلمانوں کا نہیں بلکہ بادشاہ کا مال تھا‘ ہر جائز و ناجائز راستے سے اس میں دولت آتی تھی اور ہر جائز و ناجائز راستے میں بے غل و غش صرف ہوتی تھی۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ اس کے حساب کا سوال اٹھا سکے۔ سارا ملک ایک خوان یغما تھا جس پر ایک ہر کارے سے لے کر سربراہِ مملکت تک‘ حکومت کے سارے کل پرزے حسبِ توفیق ہاتھ مار رہے تھے اور ذہنوں سے یہ تصور ہی نکل گیا تھا کہ اقتدار کوئی پروانہ اباحت نہیں ہے جس کی بدولت یہ لوٹ مار ان کے لیے حلال ہو اور پبلک کا مال کوئی شیر مادر نہیں ہے‘ جسے وہ ہضم کرتے رہیں اور کسی کے سامنے انہیں اس کا حساب دینا نہ ہو۔
۶۔ قانون کی حکومت
چھٹا اصول اس دستور کا یہ تھا کہ ملک میں قانون (یعنی خدا اور رسولؐ کے قانون) کی حکومت ہونی چاہیے۔ کسی کو قانون سے بالاتر نہ ہونا چاہیے۔ کسی کو قانون کے حدود سے باہر جا کر کام کرنے کا حق نہ ہونا چاہیے۔ ایک ایک عامی سے لے کر سربراہِ مملکت تک سب کے لیے ایک ہی قانون ہونا چاہیے اور سب پر اسے بے لاگ طریقے سے نافذ ہونا چاہیے۔ انصاف کے معاملے میں کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ ہونا چاہیے اور عدالتوں کو انصاف کرنے کے لیے ہر دبائو سے بالکل آزاد ہونا چاہیے۔ خلفائے راشدینؓ نے اس اصول کی پیروی کا بھی بہترین نمونہ پیش کیا تھا۔ بادشاہوں سے بڑھ کر اقتدار رکھنے کے باوجود وہ قانون الٰہی کی بندشوں میں جکڑے ہوئے تھے‘ نہ ان کی دوستی اور رشتہ داری قانون کی حد سے نکل کر کسی کو کچھ نفع پہنچا سکتی تھی‘ اور نہ کی ناراضگی کسی کو قانون کے خلاف کوئی نقصان پہنچا سکتی تھی۔ کوئی ان کے اپنے حق پر بھی دست درازی کرتا تو وہ ایک عام آدمی کی طرح عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے تھے اور کسی کو ان کے خلاف شکایت ہوتی تو وہ استغاثہ کر کے انہیں عدالت میں کھینچ لا سکتا تھا۔ اسی طرح انہوں نے اپنی حکومت کے گورنروں اور سپہ سالاروں کو بھی قانون کی گرفت میں کس رکھا تھا‘ کسی کی مجال نہ تھی کہ عدالت کے کام میں کسی قاضی پر اثرانداز ہونے کا خیال بھی کرتا۔ کسی کا یہ مرتبہ نہ تھا کہ قانون کی حد سے قدم باہر نکال کر مواخذہ سے بچ جاتا۔ لیکن خلافت سے بادشاہی کی طرف انتقال واقع ہوتے ہی اس قاعدے کے بھی چیتھڑے اڑ گئے۔ اب بادشاہ اور شاہزادے اور امرا اور حکام اور سپہ سالار ہی نہیں‘ شاہی محلات کے منہ چڑھے لونڈی غلام تک قانون سے بالاتر ہو گئے۔ لوگوں کی گردنیں اور پٹھیں اور مال اور آبروئیں‘ سب ان کے لیے مباح ہو گئیں۔ انصاف کے دو معیار بن گئے۔ ایک کمزور کے لیے اور دوسرا طاقت ور کے لیے۔ مقدمات میں عدالتوں پر دبائو ڈالے جانے لگے اور بے لاگ انصاف کرنے والے قاضیوں کی شامت آنے لگی۔ حتیٰ کہ خدا ترس فقہا نے عدالت کی کرسی پر بیٹھنے کے بجائے کوڑے کھانا اور قید ہو جانا زیادہ قابلِ ترجیح سمجھا تاکہ وہ ظلم و جور کے آلہ کار بن کر خدا کے عذاب کے مستحق نہ بنیں۔
۷۔ حقوق اور مراتب کے لحاظ سے کامل مساوات
مسلمانوں میں حقوق اور مراتب کے لحاظ سے کامل مساوات‘ اسلامی دستور کا ساتواں اصول تھا جسے ابتدائی اسلامی ریاست میں پوری قوت کے ساتھ قائم کیا گیا تھا۔ مسلمانوں کے درمیان نسل‘ وطن‘ زبان وغیرہ کا کوئی امتیاز نہ تھا۔ قبیلے اور خاندان اور حسب و نسب کے لحاظ سے کسی کو کسی پر فضیلت نہ تھی۔ خدا اور رسولؐ کے ماننے والے سب لوگوں کے حقوق یکساں تھے اور سب کی حیثیت برابر تھی۔ ایک کو دوسرے پر ترجیح اگر تھی تو سیرت و اخلاق اور اہلیت و صلاحیت‘ اور خدمات کے لحاظ سے تھی۔ لیکن خلافت کی جگہ جب بادشاہی نظام آیا تو عصبیت کے شیاطین ہر گوشے سے سر اٹھانے لگے۔ شاہی خاندان اور ان کے حامی خانوادوں کا مرتبہ سب سے بلند و برتر ہو گیا۔ ان کے قبیلوں کو دوسرے قبیلوں پر ترجیحی حقوق حاصل ہو گئے۔ عربی اور عجمی کے تعصبات جاگ اٹھے اور خود عربوں میں قبیلے اور قبیلے کے درمیان کش مکش پیدا ہو گئی۔ ملتِ اسلامی کو اس چیز نے جو نقصان پہنچایا اس پر تاریخ کے اوراق گواہ ہیں۔
امام حسینؓ کا مومنانہ کردار
یہ تھے وہ تغیرات جو اسلامی خلافت کو خاندانی بادشاہت میں تبدیل کرنے سے رونما ہوئے۔ کوئی شخص اس تاریخی حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا کہ یزید کی ولی عہدی ان تغیرات کا نقطۂ آغاز تھی اور اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ اس نقطے سے چل کر تھوڑی مدت کے اندر ہی بادشاہی نظام میں وہ سب خرابیاں نمایاں ہو گئیں جو اوپر بیان کی گئی ہیں۔ جس وقت یہ انقلابی قدم اٹھایا گیا تھا‘ اس وقت یہ خرابیاں اگرچہ بتمام و کمال سامنے نہ آئی تھیں‘ مگر ہر صاحبِ بصیرت آدمی جان سکتا تھا کہ اس اقدام کے لازمی نتائج یہی کچھ ہیں اور اس سے ان اصلاحات پر پانی پھر جانے والا ہے جو اسلام نے سیاست و ریاست کے نظام میں کی ہیں۔ اسی لیے امام حسینؓ اس پر صبر نہ کر سکے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ جو بدتر سے بدتر نتائج بھی انہیں ایک مضبوط جمی جمائی حکومت کے خلاف اٹھنے میں بھگتنے پڑیں‘ ان کا خطرہ مول لے کر بھی انہیں اس انقلاب کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کوشش کا جو انجام ہوا‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ مگر امامؓ نے اس عظیم خطرے میں کود کر اور مردانہ وار اس کے نتائج کو انگیز کر کے جو بات ثابت کی وہ یہ تھی کہ اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات امت مسلمہ کا وہ بیش قیمت سرمایہ ہیں‘ جسے بچانے کے لیے ایک مومن اپنا سر بھی دے دے اور اپنے بال بچوں کو بھی کٹوا بیٹھے تو اس مقصد کے مقابلے میں یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے اور ان خصوصیات کے مقابلے میں وہ دوسرے تغیرات جنہیں اوپر نمبروار گنایا گیا ہے‘ دین اور ملت کے لیے وہ آفت عظمیٰ ہیں جسے روکنے کے لیے ایک مومن کو اگر اپنا سب کچھ قربان کر دینا پڑے تو اس میں دریغ نہ کرنا چاہیے۔ کسی کا جی چاہے تو اسے حقارت کے ساتھ ایک سیاسی کام کہہ لے مگر حسینؓ ابن علیؓ کی نگاہ میں تو یہ سراسر ایک دینی کام تھا‘ اسی لیے انہوں نے اس کام میں جان دینے کو شہادت سمجھ کر جان دی۔