شجرِہاے سایہ دار

بعض لوگ اپنی ذات میں ایک انجمن ہوتے ہیں اور بعض لوگ ایک شجر ثمر دار کی مانند کہ جن کے سائے میں اپنے پرائے، امیر غریب، بچے بوڑھے سب پناہ لیتے ہیں اور ان کا پھل کھاتے ہیں۔ ان کی چھائوں سب کے لیے ہوتی ہے ۔ وہ اپنی چھائوں اور اپنے پھل سے کسی کو بھی محروم نہیں کرتے ۔ ہماری اماں جان (بیگم مودودی) بالکل ایسی ہی تھیں ۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھیں۔ ہمارے والد محترم کے حوالے سے ہمارا ہر وقت لوگوں سے بھرا رہتا تھا، باہر مرد حضرات اور اندر خواتین۔
ہم نے بچپن سے اپنے گھر’ جمعہ‘ ہوتا دیکھا تھا۔ ۱۱ بجے سے گھر کے سب سے بڑے کمرے میں دری ،چاندنی کا فرش بچھ جاتا تھا اور ہماری اماں جان نہا دھو کر صلوۃ التسبیح پڑھنے میں مشغول ہو جاتی ہیں۔ اسی اثنا میں دور و نزدیک سے خواتین کی آمد شروع ہو جاتی تھی ۔ چونکہ یہ انفرادی عبادت ہے اس لیے ہمارے گھر میں صلوۃ التسبیح کبھی باجماعت نہیں ہوئی ۔جب جمعہ کی نماز کا وقت ہو جاتا تو کمرہ تقریبا خواتین سے بھر جاتا تھا اور ہماری اماں جان نماز باجماعت پڑھاتی تھیں۔ نماز کے بعد بہت لمبی اجتماعی دعا ہوتی تھی اور اس کے بعد درس قرآن وحدیث ہوتا تھا۔ درس کے بعد دوبارہ دعا ہوتی تھی جس کے بعد یہ اجتماع ختم ہو جاتا تھا۔
اسی طرح عیدین کی نمازیں ہمارے گھر میں اداہوتی تھیں۔ ہماری والدہ فجر کی نماز کے بعد تلبیہ پڑھتی جاتی تھیں اور عید کی نماز کے لیے تیاری کرواتی تھیں ۔ ابھی ہم دری ،چاندنی کا فرش بچھا کر فارغ بھی نہیں ہوتے تھے کہ نماز عید کے لیے خواتین کی آمد شروع ہو جاتی تھی جو آ کر خاموشی کے ساتھ صفیں باندھ کر بیٹھتی جاتی تھیں ۔ پھر سب مل کر تلبیہ پڑھتے تھے ۔سورج نکلتے ہی خواتین کو تکبیروں کے بارے میںہدایات دی جاتی تھیں اور پھر اماں جان بڑی خوش الحانی سے سب کو نماز پڑھاتی تھیں ۔نماز کے بعد خطبہ ہوتا تھا ۔ دعا کے بعد سب کو سویاں کھلائی جاتی تھیں اور خود سب سے گلے ملتی تھیں اور عید کی مبارک باد دیتی تھیں۔
جیسے ہی ذہن پیچھے کی طرف لوٹتا ہے چشم تصور میں ایک منظر گھوم جاتا ہے۔
رات کا وقت ہے اور اماں جان اپنے بچوں کو اپنے سے لگائے کھڑی ہیں ۔دولیڈی کانسٹیبل آگے بڑھتی ہیں ۔وہ اماں جان ،ہماری اور پورے گھر کی تلاشی لیتی ہیں ۔ اباجان کے کپڑے ایک سوٹ کیس میں رکھے ہیں اور وہ تیار ہو کر کہیں جانے کو کھڑے ہیں ۔پھر یکدم اباجان نے پیچھے مڑ کر ہماری طرف دیکھے بغیر قدرے بلند آواز میں کہا : ’’السلام علیکم ،خدا حافظ فی امان اللہ۔ ‘‘ اور پولیس والوں کے ساتھ روانہ ہو گئے ۔ یہ پہلی گرفتاری تھی جو ۴ ؍اکتوبر ۱۹۴۸ کو ہوئی۔ اس وقت میری عمر آٹھ سال تھی ۔
بعد میں ،میں نے اماں جان سے پوچھا : ’’اباجان نے ہماری طرف مڑ کر دیکھا کیوں نہیں تھا؟‘‘
تواُنھوں نے بڑے اطمینان سے کہا : ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی تو مکے سے جاتے وقت حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا تھا ۔ پیچھے مڑ کر دیکھنے سے ارادے اور عزم میں کمزوری آ جاتی ہے۔ ‘‘
وہ چونکہ ہمیں انبیاء علیہم السلام کے قصے سناتی رہتی تھیں اس لیے اتنا اشارہ ہی کافی تھا۔
جب اباجان گرفتار ہوئے تو اس وقت گھر میں بہت تھوڑے سے پیسے تھے ۔ہماری اماں جان نے زندگی کے معمولات بدل دیے تھے ۔دھوبی کو کپڑے دینے بند کر کے اُنھوں نے کپڑے خود دھونے شروع کر دیے تھے جب کہ ان کا تعلق دہلی کے ایسے متمول گھرانے سے تھا جہاں بلا مبالغہ ایک رومال بھی خود نہیں دھویا جاتا تھا ۔۔۔۔ ملازم کو فارغ کر کے کھانا خود پکانا شروع کر دیا ۔ اس وقت ایک مائی جو اچھرہ سے جمعہ پڑھنے ہمارے ہاں آیا کرتی تھی اور ایک ٹانگے والے کی بیوہ بہن تھی، ضد کر کے ہمارے ہاں آگئی اور سارے کام سنبھال لیے اور اماں جان سے کہا آپ اللہ تعالیٰ کے کام کریں گھر کے کام میں کروں گی۔ اس کانام ’’بھاگ بھری‘‘ (قسمت والی) تھا۔ یہ ہماری سمجھ میں نام نہیں آتا تھا ۔ اس لیے ہم اسے رس بھری کہتے تھے جس کا اس نے کبھی بُرا نہیں مانا تھا۔
اس زمانے میں ہماری اماں جان ہر وقت یا حیی یا قیوم برحمتک استغیث کا ورد کرتی رہتی تھیں ۔ ایک مرتبہ بہت شدید دمے کا دورہ پڑ گیا تو بس اتنا کہا: ’’میرے میاں جیل میں ہیں مجھے کچھ ہو گیا تو میرے بچے روئیں گے اور انھیں کوئی چپ کرانے والا بھی نہیں ہو گا ۔‘‘ اس پر ہماری دادی اماں جو ہمارے ساتھ ہی رہتی تھیں سخت ناراض ہوئیں کہ کیوں مایوسی کی باتیں کرتی ہو حوصلہ کرو کیا ہوا جو ذرا سا سانس اوپر نیچے ہوگیا۔
ہماری دادی اماں بڑی حوصلے والی تھیں ۔وہ ہماری اماں جان کو نصیحت کیا کرتی تھیں: ’’بچوں کو ایسی عادت ڈالو کہ سرد و گرم ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرسکیں۔ ایک وقت سونے کا نوالہ کھلائو، موتی کوٹ کر کھلائو لیکن دوسرے وقت دال سے روٹی کھلائو ،چٹنی سے روٹی کھلائو۔بچوں کو کبھی بھی ایک طرح کی عادت نہ ڈالو اور نہ ہر وقت ان کی منھ مانگی مراد پوری کرو ۔ ماں باپ تو آسانی سے اولاد کی عادتیں خراب کر دیتے ہیں لیکن دنیا لحاظ نہیں کرتی۔ یہ تو بڑے بڑوں کو سیدھا کر دیتی ہے ۔‘‘اور پھر کہتی تھیں: ’’ میں نے اپنے بچوں کو اسی طرح پالا ہے ۔ ایک وقت اچھے سے اچھا کھلایا تو دوسرے وقت دال چٹنی سے روٹی کھلایا‘‘۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے اباجان ہر طرح کے سرد و گرم حالات سے بڑی ثابت قدمی کے ساتھ گزر گئے اور ہر سختی اپنی جان پر جھیل گئے ۔ ان کے اعصاب فولاد کے بنے ہوئے تھے ۔ وہ اپنا ٹوٹا ہوا بٹن خود ٹانک لیتے تھے ۔اپنا پھٹا ہوا کرتہ خود رفو کر لیتے تھے۔ ان کی ’جیل کٹ‘(jail kit) جو بعد میں ہر وقت تیار رہتی تھی ،اس میں سوئی دھاگا اور ہر سائز کے بٹن بھی ہوتے تھے ۔
ہماری دادی اماں ولی اللہ تھیں ۔وہ جب بیمار ہوتی تھیں تو آسمان کی طرف نظریں اٹھا کر بڑے جذبے کے ساتھ کہتی تھیں : من مریضم توطبیبم ۔۔۔۔ اور پھر وہ ٹھیک ہو جاتی تھیں ۔کبھی ڈاکٹر کو نہیں دکھایا اور نہ کبھی دوا پی ۔اگر کبھی پھوڑا پھنسی نکل آتا تو اس جگہ ہاتھ رکھ کر کہتی تھیں : اے دنبل بزرگ مشو خدائے مابزرگ تر است[اے پھوڑے زیادہ نہ بڑھ ہمارا خدا سب سے بڑا ہے]۔ یہ کہنے سے وہ پھوڑا ٹھیک ہو جاتا تھا۔ وہ فارسی زبان وادب کی بہت زبردست اسکالر تھیں اور اکثر ایسا بھی ہوتا کہ فارسی اشعار میں بات کا جواب دیتیں۔
ہماری اماں جان کہتی تھیں: ’’میں نے اپنی پوری زندگی میں تمھاری دادی اماں جیسی کوئی دوسری عورت نہیں دیکھی کہ جس میں سرے سے نفس ہی نہ ہو۔ انھیں کسی چیز کی طلب نہیں تھی۔‘‘
دادی اماں کہا کرتی تھیں : ’’صوفیا کی یہ صفت ہے کہ وہ کسی کو منع نہیں کرتے تھے ،طمع نہیں کرتے اور جمع نہیں کرتے۔‘‘ اتفاق سے یہ تینوں صفات ہماری دادی اماں، ابا جان اور اماں جان میں تھیں ۔رضا بقضا اور صبر جیسی صفات کی ان تینوں ہستیوں نے اپنے اندر اس طرح سے پرورش کی تھی کہ وہ نفس مطمئنہ کا بہترین نمونہ بن گئے تھے۔
اماں جان کہا کرتی تھیں :’’ میں نے جینے کا سلیقہ تمھاری دادی اماں سے سیکھا ہے۔‘‘
حیرت کی بات تھی کہ ساس بہو دونوں ہمیشہ ایک راے رکھتی تھیں اور کبھی آپس میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا تھا۔
جب اباجان پہلی مرتبہ جیل میں گئے اور ہاتھ بالکل تنگ ہو گیا تو اماں جان نے فیصلہ کیا کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے بچوں کی تعلیم جاری رکھنی چاہیے۔ ہماری اماں جان کی ایک نہایت مخلص دوست خورشید خالہ جب ان سے ملنے آئیں تو اماں جان نے اپنا کچھ زیور انھیں دیا کہ اسے فروخت کر لائو ۔ اسی طرح وہ بچوں کی تعلیم اور گھر کے اخراجات پورے کرتی رہیں۔ بڑی جز رسی کے ساتھ بہت سنبھل کر خرچ کرتی تھیں۔
اماں جان کہا کرتی تھیں: ’’ دنیا میں ہر چیز کے بغیر گزارا ہو سکتا ہے ۔گزارا ہوتا نہیں بلکہ کیا جاتا ہے۔بہر حال اللہ تعالیٰ کی مدد سے وہ مشکل وقت بھی گزر ہی گیا اور ۲۸ مئی ۱۹۵۰ء کو ۱۹ ماہ اور ۲۵ دن کی نظر بندی کے بعد اباجان پھولوں کے ہاروں سے لدے رہا ہو کر گھر آگئے اور سارا گھر مبارک باد دینے والوں سے بھرگیا۔
۲۸مارچ ۱۹۵۳ء کو اباجان دوبارہ مارشل لا کے تحت گرفتار کر لیے گئے ۔ پھر وہی گنے چنے پیسے تھے اور چھوٹے چھوٹے آٹھ بچوں کے ساتھ دمے کی مریضہ ،انتہائی کمزور صحت والی ہماری اماں جان تھیں جنھوں نے بڑے حوصلے سے ان حالات کا مقابلہ کیا ۔کبھی چوڑی اور کبھی انگوٹھی بیچنے کا سلسلہ جاری رہا ( یہ کام خورشید خالہ مرحومہ انجام دیتی تھیں)۔ حسب سابق پھر خود کھانا پکانا اور گھر کے سارے کام کرنے شروع کر دیے۔
اس مرتبہ مارشل لا کے تحت فوجی عدالت میں اباجان پر مقدمہ چل رہا ہے۔ ۹ مئی کو مقدمے کی کارروائی مکمل ہوگئی۔ یہ مقدمہ ایک پمفلٹ قادیانی مسئلہ لکھنے کے سلسلہ میں چل رہا تھا۔ ۱۱ مئی کی صبح اماں جان ناشتہ بنا رہی تھیں اور ہم سب بچے اسکول جانے کے لیے تیار ہو کر ناشتے کے انتظار میں بیٹھے تھے کہ یکدم ہمارے سب سے بڑے بھائی عمر فاروق ہاتھ میں ایک اخبار لیے بڑے گھبرائے ہوئے اندر آئے اور اماں جان کو ایک طرف لے جا کر اخبار دکھایا۔ اس اخبار میں نہ جانے کیا تھا کہ اسے دیکھتے ہی اماں جان کا چہرہ زرد ہو گیا اور دوسرے لمحے ہی اُنھوں نے وہ اخبار چھپا دیا اور ایک لفظ کہے بغیر ہمارے لیے اسی دلجمعی اور اسی رفتار سے پراٹھے پکانے شروع کر دیے ۔ ہم سب کو ناشتہ کروا کر اسکول روانہ کر دیا اور اندر جا کر آکا بھائی (سید عمر فاروق ) کو بھی اسکول جانے کو کہا ۔ ان کی اندر سے آواز آئی : ’’ نہیں اماں مجھ سے اسکول نہیں جایا جائے گا‘‘۔
دوسرے بڑے بھائی احمد فاروق گھر سے کچھ ہی دور گئے تھے کہ ایک ہاکر زو رزور سے اعلان کر رہا تھا : ’’مولانا مودودی کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی‘‘۔
وہ تو اپنا اخبار بیچنے کے لیے آواز لگا رہا تھا لیکن اسے معلوم نہ تھا کہ ایک بچہ جو یونیفارم پہنے سائیکل پر اپنے اسکول جا رہا ہے یہ اسی کے باپ کو پھانسی دینے کا اعلان ہے غرض احمد فاروق بھائی آدھے راستے سے ہی واپس آگئے۔
میں اور اسما جب اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلے تو ہاکروں کی صدائیں کان میں پڑیں۔ مولانا مودودی کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ اس وقت ہمیں معلوم ہوا کہ آکا بھائی اخبار ہاتھ میں لیے کیوں گھبرائے ہوئے اماں جان کے پاس آئے تھے اور اس اخبار میں کیا تھا کہ اسے دیکھتے ہی اماں جان کا چہرہ زرد پڑ گیا تھا ۔ لیکن ہم دونوں بہنیں گھر واپس نہیں آئیں بلکہ سیدھی اسکول چلی گئیں ۔
ہم ۶۰ فیروز پور روڈ والے سرکاری اسکول میں پڑھتی اور پیدل جاتی تھیں ۔اسکول میں ہمیں جو بھی دیکھتا حیران رہ جاتا ۔ہماری ہیڈ مسٹریس صاحبہ ایک عیسائی خاتون تھیںاُنھوں نے جب اسکول اسمبلی میں ہمیں دیکھا تو سب سے کہا : ’’ دیکھو رہنما ایسے ہوتے ہیں کہ باپ کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے اور بیٹیاں صاف ستھرے یونی فارم پہنے بالکل پرسکون اسمبلی میں کھڑی ہیں اور شاباش اس ماں کو ہے جس نے ایسے دن ایسے موقعے پر بھی اپنی بچیوں کو صاف ستھرے کپڑے پہنا کر ،بال بنا کر ، کھلا پلا کر اسکول روانہ کر دیا ۔ یہ لڑکیوں کا کمال نہیں ہے یہ تو ان کی ماں کی عظمت ہے کہ ایسے موقعے پر بھی اُنھوں نے اپنی بچیوں کی تعلیم کو مقدم جانا ۔کوئی اور جاہل عورت ہوتی تو اس وقت اس نے رو رو کر اور بین کر کر کے سارا محلہ سر پر اٹھایا ہوا ہوتا۔‘‘
ہیڈ مسٹریس صاحبہ نے کہا : ’’ عام لوگوں اور لیڈروں میں یہی فرق ہوتا ہے۔‘‘ اس وقت میں نویں جماعت میں تھی اور اسما ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی ۔وہ ہیڈ مسٹریس صاحبہ تو عیسائی تھیں اور ایسی باتیں کر رہی تھیں جب کہ ہماری دوسری اسکول ٹیچرز جو مسلمان تھیں کہہ رہی تھیں کہ یہ کہاں سے لیڈر بن گئے یہ تو غدار ہیں، پاکستان کی مخالفت کرنے والے۔ لڑکیاں بھی دیکھو کتنی مکار ہیں۔ یہ سب ایکٹنگ ہے چالاک ماں کی چالاک بیٹیاں !
اسکول سے جب ہم اپنے گھر ۵ اے ذیلدار پارک آئے تو منظر ہی کچھ اور تھا ۔
پوری گلی لوگوں سے بھری پڑی تھی۔ دور دور تک بسیں کھڑی تھیں جن میں سوار ہو کر لوگ دوسرے شہروں سے آگئے تھے ،ہم دونوں بہنیں گلی سے گزر کر گھر کے دروازے تک بمشکل پہنچ پائیں ۔پھر دروازے سے گھر کے اندر داخل ہونا مشکل تر ہو گیا ۔کچھ لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے اور کچھ خاموشی سے آنسو بہا رہے تھے۔ ایسے میں جب اُنھوں نے ہمیں خاموشی سے بستے اٹھائے اسکول سے گھر آتے دیکھا تو حیران رہ گئے۔ اُنھوں نے اپنے آنسو پونچھ ڈالے اور کہا : ’’ جب مولانا کے بچے نہیں رو رہے اور صبر وسکون کے ساتھ حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں تو ہم روتے اور بے صبرے ہوتے کیا اچھے لگتے ہیں۔‘‘
کچھ لوگوں نے کہا کہ ’’ صبر تو اسی کو کہتے ہیں ۔‘‘ بڑی مشکل سے ہجوم میں سے گزر کر جب ہم گھر کے اندر پہنچے تو پورا گھر خواتین سے پٹا پڑا تھا۔ جو خواتین اس دن ہمارے گھر اظہار ہمدردی کے لیے محبت سے آئی تھیں ،رو رہی تھیں ۔۔۔۔۔اماں جان ان کو صبر کی تلقین کر رہی تھیں اور یہی حال ہماری دادی اماں کا بھی تھا ۔جب ہمیں دیکھا تو اماں جان نے بس اتنا کہا : بیٹا گھبرانا نہیں ،صبر کرنا ۔‘‘ اور پھر ہم سب کو اپنے ہاتھ سے پکایا ہوا کھانا کھلایا اور جا کر خواتین میں بیٹھ گئیں ۔
اس روز ایک خاتون نے اماں جان سے کہا تھا کہ بیگم صاحبہ ،آج رات آپ ۱۰۰ نفل حاجت کے لیے پڑھیں اور پھر تہجد کے نفل پڑھ کر مولانا کی زندگی ،سلامتی اور بقا کے لیے دعا کر کے یہ منت مانیں کہ جب سلامتی ،خیرعافیت سے گھر واپس آئیں گے تو پھر میں اسی طرح ۱۰۰ نفل شکرانے کے اداکروں گی ۔۔۔۔غرض وہ ساری رات اماں جان نے نفل پڑھتے ہوئے گزاری ۔رات کو جب دیکھا (ایسی ہولناک رات میں بھلا نیند کسے آنی تھی ) انھیں نفل پڑھتے ہوئے پایا ۔ فجر کی اذان سنتے ہی ہم بھی اٹھ کھڑے ہوئے ۔فجر کی نماز کے بعد اماں جان نے تلاوت کے لیے قرآن کھولا اور وہی سلسلہ جہاں سے روز پڑھتی تھیں پڑھنا شروع کیا ۔ہمیں حیرت ہوئی کہ سورۃ بقرہ کی جو آیت ان کے سامنے آئی وہ یہ تھی :
أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَأْتِکُم مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْاْ مِن قَبْلِکُم مَّسَّتْہُمُ الْبَأْسَاء وَالضَّرَّاء وَزُلْزِلُواْ حَتَّی یَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ مَعَہُ مَتَی نَصْرُ اللّہِ أَلا إِنَّ نَصْرَ اللّہِ قَرِیْب[البقرہ۔۲۱۴]
ترجمہ : پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی تمھیں جنت میں داخلہ مل جائے گا حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے ؟ ان پر سختیاں گزریں ،مصیبتیں آئیں وہ ہلا کر مارے گئے حتیٰ کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی اہل ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ۔ اس وقت انھیں تسلی دی گئی کہ ہاں ،اللہ کی مدد قریب ہے ۔
اس آیت کو اماں جان پڑھتی گئیں اور روتی گئیں ۔۔۔پھر مجھے بلایا اور یہ آیت دکھائی کہنے لگیں : ’’دیکھو یہ زندہ کتاب ہے ،یہ انسان کی دکھتی رگ پکڑتی ہے ۔یہ دل کا چور پکڑتی ہے ۔ یہ دکھی انسان کے زخموں پر مرہم رکھتی ہے ۔بس شرط یہ ہے کہ تم اس سے دوستی کر لو ! یہ حالات کے مطابق ، دلی کیفیت کے مطابق ہمیں کیسے تسلی دے رہی ہے ،کیسے ہمارے زخموں پر مرہم رکھ رہی ہے !‘‘
بس پھر سارا دن اماں جان مطمئن رہیں ۔۔۔۔وہ بار بار اس آیت کا ورد کرتی رہیں اور کہتی رہیں:’’ ویسے تو سارے قرآن پر ہی اللہ تعالیٰ کا شکر واجب ہے کہ اس نے ایسی زندہ کتاب ہم کو عطا فرمائی لیکن اس آیت کا ہم سب پر بہت ہی بڑا احسان ہے کہ اس نے ایسے نازک وقت میں ہمیں حوصلہ دیا ،بشارت دی اور ہماری دست گیری کی ۔ دوسری رات بھی آئی اور گزر گئی ۔اماں جان مطمئن رہیں ،باہر مردوں سے اور عورتوں سے گھر بھرا رہا۔ عورتیں روتی ہوئی آتی تھیں مگر اندر آکر جب اماں جان اور دادی جان کا صبر دیکھتی تو خاموش ہو جاتی تھیں اور ایک دوسری سے کہتی تھیں ’’اس کو کہتے ہیں صبر!‘‘
اباجان کی سزائے موت کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں ،ہڑتالوں اور سزا کی منسوخی کے مطالبات کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ دوسرے مسلم ممالک ہی نہیں بہت سے غیر مسلم ممالک کے مسلمانوں کی طرف سے بھی گورنر جنرل اور وزیر اعظم کے نام تار بارش کی طرح برس رہے تھے ۔ ردعمل انتہائی وسیع اور ہمہ گیر تھا۔
۱۳ مئی کو اماں جان نماز عصر سے فارغ ہوئی ہی تھیں کہ جماعت کے ایک صاحب اندر آئے اوراُنھوں نے کہا کہ بیگم صاحبہ کو دروازے کے پاس بلائو۔ ہم سب ڈر گئے کہ پتا نہیں کیسی خبر ہے ؟ اماں جان بھی بڑی گھبرائیں ہوئی آئیں کہ یکدم دروازے کے پیچھے سے آواز آئی: ’’بیگم صاحبہ مبارک ہو! مولانا کی سزائے موت ۱۴ سال قید بامشقت میں تبدیل ہوگئی۔ اس کے علاوہ حکومت کے خلاف ایک بیان جاری کرنے کے جرم میں سات سال مزید قید با مشقت کی سزا سنائی گئی ہے ۔‘‘ وہ صاحب تو اپنی کہی جا رہے تھے ادھر اماں جان کھڑے قد سے سجدے میں گر گئیں ۔ ان کی دیکھا دیکھی ہم لوگ بھی سجدے میں گر گئے ۔
اب تو گھر کا ماحول ہی بدل گیا ۔ سب طرف سے مبارک ،سلامت شروع ہو گئی ۔یہ کسی نے سوچا ہی نہیں کہ آ گے ۲۱ سال قید ہے !اماں جان بار بار کہہ رہی تھیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے ۔پھر کہتیں : دیکھو آیتیں اور حدیثیں خود اُٹھ اُٹھ کر اپنا مطلب ہمیں سمجھا رہی ہیں کہ ہم ایسے حالات کے لیے ہیں اور ہمارا یہ مطلب ہے ۔
اس وقت اماں جان نے ہم کو اپنا خواب سنایا تھا جو اباجان کی کورٹ مارشل سے سزائے موت سے صرف ایک دن پہلے اُنھوں نے دیکھا تھا ۔ کیا دیکھتی ہیں کہ ایک ہوائی جہاز آ کر اتر اہے اور میں تمہارے اباجان ہم سب کو لے کر سوار ہو گئے ہیں ۔۔۔ جہاز ہے کہ بڑی تیز رفتار کے ساتھ آسمان کی طرف عمودی پرواز کر رہا ہے ۔مجھے سخت چکر آرہے ہیں اور بڑی گھبراہٹ ہو رہی ہے ۔یوں لگتا ہے کہ میرا دل پھٹ جائے گا ۔پھر یک لخت ہوائی جہاز کہیں اتر جاتا ہے اور تمھارے اباجان میرا ہاتھ پکڑ کر ،سہارا دے کر جہاز سے اتار رہے ہیں ۔ ادھر میری جان پر بنی ہو ئی ہے اور ادھر تمہارے اباجان کی آواز آتی ہے کہ ذرا کھڑی ہو کر نیچے دیکھو تو سہی کہ تم کتنی بلندی پر آ گئی ہو ۔۔۔۔پھر میں نیچے دیکھتی ہوں تو واقعی لوگ سڑکوں پر بونوں کی طرح نظر آ رہے ہیں اور بڑی بڑی اونچی عمارتیں کھلونوں کی طرح نظر آ رہی ہیں ۔۔۔اتنے میں میری آنکھ کھل گئی ۔ خواب سنا کر کہنے لگیں کہ اب اس خواب کی تعبیر سامنے آئی ہے ۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ باری تعالیٰ کو تو صرف اپنے بندوں کے درجات بلند کرنے تھے ۔ ! اس بھاری آزمائش میں سے بخیرو خوبی گزار کر ہمیں بلندیوں تک پہنچانا تھا!
اماں جان اور دادی اماں کی یہ پوری کوشش ہوتی تھی کہ بچے خوش وخرم رہیں اور ان کی نفسیات پر کوئی اثر نہ پڑے ۔ہماری اماں جان کہتی تھیں : انسان کا بچپن خوشیوں سے بھرپور ہونا چاہیے اور اسے کبھی عدم تحفظ کا احساس نہ ہونے پائے کیونکہ کسی بھی قسم کی محرومی اگر بچپن میں آ دمی کو ڈس لے تو یہ چیزیں انسان کی شخصیت کو گہنا دیتی ہیں۔ یہ تلخ یادیں پھر ساری زندگی آسیب کی طرح اس کا پیچھا کرتی ہیں ۔انھیں یہ فکر پریشان کرتی ہے کہ میرے بچے بچپن میں ہی بوڑھے ہو گئے ہیں اور ان کا بچپنا چھن گیا ہے ۔ اس کے ازالے کے لیے اُنھوں نے بڑے جتن کیے اور مختلف طریقوں سے ہمیں مصروف رکھا ۔
آخر اکر ۲۹ ؍ اپریل ۱۹۵۵ء کو قانونی سقم کی بنا پر اباجان ۲۵ ماہ کی قید و بند کے بعد رہا ہو کر گھر آ گئے ۔ وہ بڑا ہی خوشیوں والا مبارک دن تھا ۔ ہمارا گھر پھولوں ،ہاروں اور مٹھائیوں سے بھر گیا ۔ہر طرف سے مبارک ،سلامت کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں ۔ ساراد ن خوشیوں میں گزر گیا ۔ جب رات ہوئی تو ہم سب سونے کے لیے لیٹ گئے ۔خوشی اور تھکاوٹ کے مارے عشا بھی نہیں پڑھی کہ یکدم اماں جان کی آواز کانوں میں پڑی: ’’ذراد یکھو کتنی بے شرمی کی بات ہے،بجائے شکرانے کے نفل پڑھنے کے اُنھوں نے فرض نماز بھی نہیں پڑھی ۔جب باپ کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی تو یہ کیسے نفل پڑھ پڑھ کر یں مانگ رہے تھے ۔ بس نکل گیا مطلب ! اب تھوڑی کبھی اللہ سے واسطہ پڑنا ہے ! ‘‘ یہ سنتے ہی ہم اُٹھے اور وضو کر کے نماز پڑھنے لگے ۔
اس پوری رات اماں جان شکرانے کے نفل پڑھتی رہیں، یعنی اُنھوں نے سزائے موت والی رات جو منت مانی تھی (کہ جب میاں خیریت کے ساتھ گھر واپس آئیں گے تو جس طرح آج رات حاجت کے ۱۰۰ نفل پڑھے ہیں اسی طرح شکرانے کے ۱۰۰ نفل پڑھوں گی ) اس کو پورا کر رہی تھیں ۔لیکن اس مرتبہ اُنھوں نے چاے کا تھرموس اپنے پاس رکھا ہوا تھا اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد چاے پیتی تھیں جب کہ سزائے موت کی خبر سننے کی اس ہولناک رات میں بالکل چاے نہیں پی تھی ۔۔۔۔سخت گرمی کا موسم تھا ۔صبح کو اماں جان بہت ہنسیں اور کہنے لگیں کہ انسان بھی کتنا ناشکرا ہے ۔جب میاں کی جان کے لالے پڑے تھے اور موت سامنے کھڑی نظر آ رہی تھی تو یہ سو نفل بہت ہلکے تھے ۔نہ نیند آئی ،نہ تھکاوٹ محسوس ہوئی، نہ طبیعت بوجھل ہوئی اور نہ دھیان ہی ادھر ادھر ہوا ۔جو الفاظ زبان سے نکل رہے تھے وہی دل سے بھی نکل رہے تھے ۔کمر بعد میں جھکتی تھی دل پہلے جھک جاتا تھا ۔لیکن کل رات کبھی نیند آتی تھی ،کبھی تھکاوٹ محسوس ہوتی تھی اور کبھی سر میں درد ہوتا تھا ۔ وہ ’’ جذب اندرون ‘‘ سرے سے نصیب ہی نہ ہوا جو اس مرتبہ ملا تھا ۔ وہ ساتھ میں توبہ اور استغفار بھی کر رہی تھیں ۔سچ ہے ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کر سکتے چاہے ساری عمر سجدے میں گرے رہیں ۔
ایک روز اباجان نے ہمیں جیل کے حالات بتائے کہ جب لاہور سے انھیں ملتان جیل لے جایا گیا تو دوپہر کے وقت وہاں پہنچے ، جو کمرہ اباجان کو دیا گیا تھا اس میں چھت کا پنکھا نہیں تھا اور نلکے کی جگہ ہینڈ پمپ تھا ۔ وہ اے کلاس کے قیدی کے کمرے میں پہنچے تو سی کلاس کا ایک مشقتی جو انھیں خدمت کے لیے دیا گیا تھا ،بیٹھا ان کا انتظار کر رہا تھا ۔ تقریباً ۴۰ سال کا خوب مضبوط جسم کا تنومند آدمی تھا ۔ پہلے تو اس نے اباجان کو غور دیکھا اور پھر یکدم اٹھ کھڑا ہوا ۔ جلدی جلدی سامان سنبھالا ۔ پھر ہینڈ پمپ چلا کر غسل خانے میں پانی رکھا اور کہنے لگے : ’’ میاں جی نہا لیجیے‘‘۔۔۔ ابا جان غسل خانے سے جو نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ پورے کمرے میں ریت بچھی ہوئی ہے اور اس پر پانی چھڑک کر ان کے لیے چارپائی بچھا کر بستر کر دیا گیا ہے ۔پوچھا : ’’ پہلے تو اس کمرے میں ریت نہیں تھی ۔یہ کیوں بچھائی ہے ؟ ‘‘ تو وہ کہنے لگا :’’ گرمی بہت ہے میں اس ریت پر پانی ڈالتا رہوں گا تا کہ کمرہ ٹھنڈا رہے اور آپ دوپہر کو آرام کر سکیں ۔‘‘ جتنی دیر میں ابا جان نے ظہر کی نماز پڑھی اتنی دیر میں اس نے کھانا تیار کر لیا اور بڑے سلیقے سے لا کر اباجان کے سامنے رکھا ۔ ساتھ میں بڑی معذرت کرتا رہا کہ مجھے آپ کے ذوق کے متعلق کچھ پتا نہیں ہے ۔بس جلدی میں جو ہو سکا کر لیا ہے ۔
پھر اس نے نوٹ کر لیا کہ اباجان کس وقت کون سی دوائیاں کھاتے ہیں ۔ اس کے بعد وہ ناشتے کی ، دوپہر کے وقت کھانے کی اور رات کو کھانے کی صحیح صحیح ادویہ ان کے سامنے رکھتا تھا ۔ کبھی یہ کہنے کی ضرورت نہیں پیش آئی کہ تم نے صبح کے وقت کی دوا نہیں رکھی ہے ۔اباجان نے بتایا :’’ اس نے جیل میں میری ایسی خدمت کی اور اس محبت سے خدمت کی کہ میں حیران رہ جاتا۔‘‘
ایک دن اس قیدی نے بتایا کہ جب اس کوارٹر میں میری ڈیوٹی لگائی گئی تھی تو مجھے بتایا گیا تھا کہ ایک نہایت خطرناک قیدی آ رہا ہے جس نے حکومت کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں ! بس اس کو راہ راست پر لانا ہے ۔ اس کو اتنا تنگ کرو کہ خاموشی سے معافی نامہ پر دستخط کر دے اور حکومت جو شرائط منوانا چاہے مان لے بس تمہارا کام اسے ہر طرح تنگ کرنا ہے ۔کھانا اتنا بدمزہ پکانا کہ زبان پر نہ رکھا جائے ۔بس جی میں کوارٹر میں بیٹھا آپ کا انتظار کر رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ذرا دیکھوں کہ آج کیسے شخص سے پالا پڑتا ہے ؟ آخر میں بھی جرائم پیشہ آدمی ہوں کسی سے کم تو نہیں ہوں! پھر جب آپ اندر آئے اور میں نے آپ کا چہرہ دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا اور سوچتا رہا کہ بھلا آپ جیسے شخص سے بھی کوئی خطرہ ہو سکتا ہے ؟ میاں جی آپ کو دیکھتے ہی پہلی نظر میں آپ کی محبت نے میرے دل میں گھر کر لیا ۔
پھر اباجان نے بتایا: ’’جب میں تفہیم القرآن لکھنے میں مصروف ہو جاتا تھا یا جب میں نماز پڑھ رہا ہوتا تھا تو مجھے محسوس ہوتا کہ بس وہ بیٹھا ٹکٹکی لگائے مجھے دیکھتا رہتا تھا۔ دن یونہی گزرتے رہے کہ بقر عید آگئی۔ اتفاق سے جو راشن جیل میں دیا جا تا تھا وہ ختم ہو چکا تھا اور مزید راشن ابھی پہنچا ہی نہیں تھا کہ عید کی چھٹیاں شروع ہوگئیں یہاں تک کہ عید کی صبح کو راشن بالکل ختم ہو چکا تھا۔ملازم سخت پریشان تھا کہ راشن پہنچا نہیں اب آپ کو ناشتا کیسے دوں؟ میں نے اس سے کہا کہ رات کو جو چنے کی دال اور روٹی بچی تھی وہی گرم کر کے لے آئو ۔کہنے لگا وہ تو میں آپ کو کبھی نہیں دوں گا ! بھلا عید کے دن کوئی رات کی باسی دال روٹی کھاتا ہے؟ میں نے اسے سمجھایا کہ تم میری فکر نہ کرو میں بڑی خوشی سے دال روٹی کھالوں گا (چونکہ اباجان صبح اٹھ بجے ناشتہ کرنے کے عادی تھے اور اپنے معمولات میں وقت کے سخت پابند تھے اس لیے اُنھوں نے آرام سے دال روٹی کا ناشتہ کر لیا ۔یہاں پر دادی اماں کی تربیت رنگ لا رہی تھی جو انھیں کبھی سونے کا نوالہ کھلاتی تھیں اور کبھی چٹنی روٹی ) جس وقت میں ناشتہ کر رہا تھا تو کسی کے سسکیاں بھر بھر کر رونے کی آواز آئی ۔پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہی ملازم بیٹھا رو رہا تھا ۔پوچھا کہ کیا بال بچے یاد آ رہے ہیں ؟کہنے لگا کہ میں آپ کو دال روٹی کھاتے دیکھ کر رو رہاہوں ۔ میں سوچ رہا ہوں کہ عید کے دن رات کی باسی دال روٹی تو ہم غریبوں نے بھی کبھی نہیں کھائی ۔ آپ تو بڑے آدمی ہیں آپ نے بھلا کہاں کھائی ہو گی؟ میں نے اسے بڑے پیار سے سمجھایا کہ دیکھو بھائی یہ راستہ میں نے بہت سوچ سمجھ کر اختیار کیا ہے اور میں بڑی خوشی سے اس راہ پر چل رہا ہوں ۔اگر کبھی بالکل بھوکا بھی رہنا پڑا تو میں آ رام سے رہ لوں گا ۔ تم میری وجہ سے رنجیدہ نہ ہوا کرو۔
میں تو ناشتہ کر کے تفہیم القرآن لکھنے بیٹھ گیا تھا لیکن ملازم بے چارے نے احتجاجاََ ناشتہ نہ کیا (اگرچہ اس کے لیے دال روٹی بچی ہوئی رکھی ہوئی تھی ) ۔اتنے میں کوارٹر کا دروازہ زور زور سے کھٹکھٹایا گیا ۔ ملازم نے دروازہ کھولا تو ایک سنتری ناشتے دان ،بڑے بڑے پیکٹ اور گٹھڑیاں اٹھائے کھڑا تھا کہ مولانا صاحب آپ کے چاہنے والے تو فجر کے وقت ہی یہ چیزیں لے آئے تھے اور جیل کے دروازے پر کھڑے تھے لیکن سپرنٹنڈنٹ صاحب کا دفتر عید کی نماز کے بعد کھلا ۔ اس کے بعد ان چیزوں کی تلاشی اور جانچ پڑتال ہوئی اس لیے دیر لگ گئی ۔ اب جو ملازم نے وہ پیکٹ ،ناشتے دان اور گٹھڑیاں کھولیں تو ان میں انواع و اقسام کی بے شمار نعمتیں تھیں ۔ میں نے اپنے جیل کے ساتھی سے کہا دیکھو یہ سب تمھارے لیے آیا ہے کیونکہ تم ہی اداسی میں بھوکے بیٹھے ہو اب خوب جی بھر کے کھائو اور باقی چیزیں دوسرے قیدیوں میں بانٹ آئو ۔مگر ملازم کف افسوس مل رہا تھا کہ کاش ! وہ دال روٹی میں نے آپ کو دینے بجائے کوئوں کو کھلا دی ہوتی ۔میرے بہت کہنے پر اس نے ناشتہ کیا اور باقی ساری چیزیں دوسرے قیدیوں میں بانٹ آیا اور ساتھ ہی ساتھ ان سے کہتا کہ میرے میاں جی کے لیے یہ سب چیزیں آئی ہیں ۔اُنھوں نے تمھیں بھجوائی ہیں!
عید کے روز دوپہر ہوئی تو اسی طرح دروازہ کھٹکھٹایا گیا اور پھر اسی طرح ناشتے دان اور ہانڈیاں کپڑے میں بندھی ہوئی آگئیں ۔ایسے ایسے کھانے آئے کہ ملازم تو حیران رہ گیا ۔ اس نے مجھے کھانا کھلایا اور باقی قیدیوں میں بانٹ آیا ۔ رات کو پھر اتنا ہی کھانا آ گیا ۔ الغرض عید کے تین دن ہمارے رفقا نے ملتان جیل میں اتنا زیادہ اور ایسی ایسی انواع و اقسام کا کھانا پہنچایا کہ سارے جیل والے اش اش کر اٹھے ۔‘‘
ادھر اباجان ہمیں یہ سب کچھ بتا رہے تھے ،ادھر اماں جان نے ہمیں کہا:’’ دیکھو سورۃ مریم کی آخری آیات میں بھی یہی بات کہی گئی ہے ۔ إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَیَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمَنُ وُدّاً[سورۃ مریم۹۶]ترجمہ : کہ جو اہل ایمان نیک اعمال کرتے ہیں رحمن ان کے لیے لوگوں کے دلوں میں محبت ڈال دیتا ہے ۔‘‘ وہ اسی طرح زندگی کے واقعات کو آیات اور احادیث کے ساتھ منطبق کر کے ہمیں ان کا مطلب سمجھایا کرتی تھیں ۔آج اخبار پڑھتے اور ٹیلی ویژن پر خبریں دیکھتے ہوئے قرآن کی آیات اور احادیث یاد آتی ہیں ۔ساتھ ہی اماں جان کے یہ الفاظ کانوں میں گونجتے ہیں :’’ تم عمل کر کے تو دیکھو پھر آیتیں اور حدیثیں خوداُٹھ کر تم کو اپنا مطلب سمجھا دیں گی۔‘‘
اماں جان نے ایک مرتبہ دادی اماں سے التجا کی کہ آپ کسی کو بددعا نہ دیں ۔ آپ کی دعا اور بددعا حرف بہ حرف لگتی ہے ۔یہ وہ موقع تھا جب ۱۹۵۳ میں اباجان جیل میں تھے اور دادی اماں نے کہا تھا کہ ’’ جس نے میرے بیٹے کو جیل میں سڑایا ہے یا اللہ ! تو اسے پلنگ پر ڈال کر ایسا سڑا کہ اس کا آدھا دھڑ گل جائے ۔‘‘ اس کے چند ماہ بعد اخبارات میں خبر چھپی کہ پاکستان کے گورنر جنرل ملک غلام محمد کو فالج ہوگیا۔یہ خبر پڑھ کر ہم حیران رہ گئے کہ دادی اماں کی بددعا غلام محمد کو کیسی لگی ۔
ان دنوں جب کبھی اباجان کو تفہیم القرآن لکھنے کا موقع نہ ملتا اور وہ دوسری مصروفیات میں مشغول ہو جاتے تو کہا کرتے تھے :’’ دیکھو تم لوگ مجھے تفہیم القرآن لکھنے نہیں دے رہے ہو اب میں جیل جانے ہی والا ہوں ۔ جب بھی میں مصروفیات کی وجہ سے تفہیم القرآن نہیں لکھ پاتا تو اللہ تعالیٰ مجھے لے جا کر جیل میں بٹھا دیتے ہیں اور میں وہاں اطمینان سے لکھتا رہتا ہوں ۔‘‘ ساتھ میں یہ بھی کہتے تھے کہ تفہیم القرآن مکمل کر لوں تو اسی اسلوب میں تفہیم الحدیث بھی لکھنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں ۔
اسی لیے اماں جان ہم بچوں پر بہت زور دیتی تھیں ’’’ اپنے اباجان کو تنگ نہ کیا کرو‘‘ ۔
جب کبھی بچے کسی چیز کے لیے تقاضا کرتے تو اماں جان ہمیں سمجھاتی کہ اگر میں ہر وقت تمھارے والد کی جان کھاتی رہتی کہ اب مجھے یہ اور یہ چاہیے اور میرے بچوں کو ایسی ایسی چیزیں درکار ہیں تو یہ ساری کتابیں جواُنھوں نے لکھی ہیں وہ نہ لکھ سکتے۔تمھارے باپ ایک ریسرچ اسکالر ہیں ،ایک مصنف اور محقق ہیں ۔ان کو خاموشی ،سکون اور اطمینان کی ضرورت ہے ۔ تم ان سے کوئی مطالبہ نہ کیا کرو اور نہ ہی ان کے سامنے اپنے تعلیمی مسائل بیان کرو ۔ان کو اپنی باتوں میں نہ الجھا یا کرو ۔ غرض اماں جان نے ا باجان کو ایسا سکون مہیا کیا کہ وہ جو چیز لکھتے تھے ذہنی طور پر پوری طرح یکسو ہو کر اور جم کر لکھتے تھے ۔
اباجان نے سورۃ یوسف کی جو تفسیر لکھی ہے اسے پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس وقت وہیں کہیں موجود تھے اور اپنا آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہے ہیں ۔سورۃ کہف یا سورۃ فیل کی تفسیر پڑھتے ہوئے بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے ۔ برسوں بعد جدہ میں شعبہ عربی کی سربراہ جو شامی النسل تھیں مجھے کہنے لگیں کہ ایک فقرے میں اپنے والد کی صفت بیان کرو تو میرے منھ سے بے ساختہ یہ جملہ نکلا کہ (وہ ایک اور ہی دنیا میں رہتے تھے ) وہ اس جواب سے بہت خوش ہوئیں اور کہنے لگیں ’’امام تیمیہ کی بھی یہی تھی۔
کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ اگر اباجان کی شادی کسی جاہل اور خواہ مخواہ مطالبے کرنے والی جھگڑالو قسم کی عورت سے ہوئی ہوتی تو کیا ہوتا ۔اماں جان کو تو شاید اللہ تعالیٰ نے بنایا ہی اباجان کے لیے تھا ۔اماں جان کا اعلیٰ ذوق ،بلند پایہ علمی رجحان ،اپنی ذات کی نفی،بے نفسی ،خوداداری اور اباجان کی دلداری کی تو کوئی حد ہی نہ تھی ۔عربی زبان کا ایک محاورہ ہے البنات عود کہ خواتین خوشبو ہوتی ہیں جو خود تو پردے میں رہتی ہیں مگر ان کا سلیقہ اور تھوڑے سے پیسوں میں بنائی ہوئی بہت ساری عزت اور بچوں کی تعلیم وتربیت سب کو نظر آتی ہے ۔
۶جنوری ۱۹۶۴ کو اباجان پھر جیل چلے گئے اور بڑے بڑے کتابوں سے بھرے صندوق جیل جانے شروع ہو گئے ۔جیل والے بھی حیران ہوتے رہتے کہ اے کلاس کے دوسرے قیدیوں کے لیے حلوے اور انواع و اقسام کے کھانے آتے تھے جب کہ مولانا صاحب کے لیے صرف کتابیں آتی ہیں اس وقت ابا جان لاہور جیل میں تھے جہاں اب شادمان کالونی ہے یہیں کہیں وہ جگہ تھی جہاں تفہیم القرآن لکھی گئی ۔ہر ہفتے ہم ملاقات کے لیے جاتے ۔ اس عرصے میں اماں جان کافی بیمار رہیں ۔ اور دادی اماں بھی نہیں رہیں تھیں (۱۹۵۸ء میں دادی اماں کا انتقال ہو چکا تھا ان کی موجودگی اماں جان کے لیے بہت بڑا اخلاقی سہارا ہوتی تھی)
ہم لوگ اس وقت اسکول کی تعلیم مکمل کر کے کالج میں پہنچ چکے تھے ۔ صدر فیلڈ مارشل ایوب خان کا زمانہ تھا ۔اباجان کے خلاف پروپیگنڈہ مہم عروج پر تھی ۔اخبارات میں سرخیاں لگتیں کہ مولانا مودودی غدار ہیں وہ پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش تھے ۔لاہور کالج برائے خواتین میں قدم رکھتے ہی کسی نہ کسی طرف سے یہ آوازے ضرور کسے جاتے۔ مردودی مردودی ۔ ایک مودودی سو یہودی ۔ٹھاہ مودودی ٹھاہ وغیرہ ۔بلاشبہ ہمارے لیے یہ باتیں سخت تکلیف دہ تھیں ۔تاہم جب بھی ہم اس بات کا تذکرہ کرتے ان سب باتوں کے جواب میں اباجان اکثر یہ شعر پڑھتے تھے ؎
درکوئے نیک نامی مارا گز ر نہ داند
گر تو نمی پسندی تغیر کن قضا را
[نیک نامی کے کوچے میں ہمیں (وہ) گزرنے نہیں دیتے یعنی سچے عاشق ہمیشہ ہی بدنام ہوتے ہیں]
لیکن ہماری اماں جان نے ہمیں سمجھا دیا کہ اگر پڑھنا ہے تو انہی حالات میں اور انہی لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر پڑھو ورنہ جاہل رہ جائو گے ۔ اپنے آپ کو صبر اور حوصلے کا پہاڑ بنا لو کہ بڑے بڑے طوفان آکر اس سے ٹکراتے ہیں ،لیکن وہ اپنی جگہ نہیں چھوڑتا وہیں کھڑا رہتا ہے ۔اپنے اندر سمندر جیسا ظرف پیدا کر لو کہ بڑے بڑے دریا آکر اس میں گزتے ہیں وہ انھیں اپنے اندر سمو لیتا ہے لیکن کبھی کنارے توڑ کر باہر نہیں نکلتا ۔
اباجان میری بیٹی رابعہ سے بہت پیار کرتے تھے ۔ایک بار ہم اسے لے کر انارکلی گئے تو سامنے سے پیپلزپارٹی کا جلوس آ گیا ۔جلوس میں اباجان کو گالیاں سن کر میں گھر واپس آگئی۔گھر کھانے پر ساتھ والی کرسی پر بیٹھ کر بیٹی رابعہ کہنے لگی ’’ نانا ابا مولانا مودودی آپ ہی ہیں نا ؟ کہنے لگے ہاں بیٹی میں ہی ہوں ۔ اس پر رابعہ بولی انارکلی میں تو آپ کو گالیاں مل رہی تھیں۔ اباجان مسکرا کر اس کی بات دہرانے لگے ۔ہم نے کہا خوش تو ایسے ہو رہے ہیں جیسے کوئی دولت مل گئی ہو ۔ابا جان نے کہا بیٹی اللہ کے راستے میں گالیاں کھانا انبیا کی سنت ہے۔
اباجان کے کردار کی جو خوبی مجھے بہت زیادہ یاد آتی ہے وہ یہ ہے کہ بلامبالغہ وہ اپنے بچوں کی اتنی عزت کیاکرتے تھے جتنی دوسرے لوگ ماں باپ کی کرتے ہیں ۔ عام حالات میں وہ ہمیں بیٹی کہا کرتے تھے ۔ذرارنجیدہ ہوتے تو صاحبزادی کہا کرتے اور اگر بہت ہی زیادہ ناراض ہوتے تو پھر ’’صاحبزادی صاحبہ ‘‘کہتے ۔بس پکارنے کا یہ انداز ہی ایک تازیانہ ہوتا تھا اور ہماری کوشش ہوتی کہ صاحبزادی صاحبہ کہنے کی نوبت نہ آئے۔
اباجان ایک ہمہ گیر شخصیت تھے اُنھوں نے اتنا کام کیا اس قدر سنجیدہ کام کیا جو دوسرے لوگوں کے نزدیک خشک اور بوجھل ہوتا مگر وہ اپنی زندگی میں نہایت باغ وبہار شخصیت کے مالک تھے ۔میرے آئیڈیل میرے ابا تھے ۔
بار بار جیل جانے کی وجہ سے اباجان کی صحت بہت زیادہ متاثر ہو گئی لہٰذا اماں جان نے اپنے درس کافی کم کر دیے ۔وہ ماڈل ٹائون لیڈیز کلب میں پچھلے ۲۵ سال سے درس دے رہی تھیں ۔ وہاںاُنھوں نے شاگردوں کی ایک کھیپ تیار کی تھی ۔ آخرکار درس کا معاملہ اپنی شاگردوں کے حوالے کر دیا اور سارا وقت اباجان کی خدمت میں گزارنے لگیں ۔ایک بار کسی نے ان سے پوچھا تھا کہ آپ نے کتنے مضامین میں ایم اے کیا ہے ؟ تو کہنے لگیں بیٹی ایم اے ،بی اے تو آپ لوگ ہیں ۔ میں نے تو دہلی کے کوئین میری اسکول سے مڈل تک پڑھا ہے ۔انہوں نے پوچھا کہ پھر آپ کے پاس اتنا علم کیسے ہے ؟ اس سوال کا اماں جان نے ایسا تاریخی جواب دیا جو میں کبھی بھلائے نہیں بھول سکتی ۔کہا : ’’ میں نے زندگی ایک ایسے عالم دین کے ساتھ گزاری ہے جن کی ایک گھنٹے کی بات چیت سن کر آدمی کو علم حاصل ہو جاتا ہے جو لوگوں کو رات رات بھر کتابیں پڑھ کر بھی نہیں ملتا !‘‘
اباجان کی بیماری بڑھتی ہی گئی اور پھر امریکا سے ڈاکٹر احمد فاروق آئے اور اباجان کو اماں جان سمیت امریکا لے گئے تا کہ یکسوئی سے ان کا علاج کروایا جائے ۔ وہیں شدید بیمار رہ کر اباجان کا ۲۲ ستمبر ۱۹۷۹ کو بفیلو کے ہسپتال میں انتقال ہو گیا ۔ یہ دہشت ناک خبر لے کر جب احمد فاروق ہسپتال سے آئے تو وہ غم کے مارے نڈھال تھے ۔اماں جان نے ساری رات کے جاگے ہوئے بھوکے پیاسے غم زدہ بیٹے کو چائے پلائی بسکٹ کھلائے اور دلاسا دیا، شکر کرو تم نے اپنے باپ کو دیکھا ان کے سائے میں اتنا وقت گزارا ورنہ وہ تو ۱۹۵۳ء ہی میں پھانسی چڑھنے کو تیار تھے ۔ اگر اس وقت انھیں پھانسی ہو جاتی تو تمھیں یاد بھی نہ رہتا کہ تمھارے باپ کی شکل کیسی تھی !اللہ اکبر ایسا حوصلہ اور ایسا توکل ۔
اماں جان نے پھر سب کو صبر کی تلقین فرمائی اور انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنے کا کہا ۔ اس پر سب اکٹھے ہونے والے مرد و خواتین ان کے صبرو حوصلے پر حیران رہ گئے ۔اسی حیرانی کا اظہار میرے ماموں ڈاکٹر جلال شمسی نے بھی کیا ۔ وہ ٹورنٹو سے گاڑی چلا کر جب اماں جان کے پاس آئے تو شدت غم سے نڈھال تھے ۔وہ اماں جان کو دیکھ کر حیران رہ گئے کہنے لگے :’’آپاجان میں ٹورنٹو سے بفیلو تک روتا ہوا آیا ہوں ۔سوچتا تھا کہ آپ کا سامنا کیسے کروں گا ؟ آپ سے کیا کہوں گا ؟لیکن آپ کو دیکھ کر تو میرے آنسو خشک ہو گئے ہیں ۔ایسی ہی حیرانی مجھے اس وقت ہوتی تھی جب بھائی صاحب جیل جاتے تھے اور آپ چھوٹے چھوٹے بچوں کو لیے اطمینان سے بیٹھی رہتی تھیں ۔ مجھے بتائیے کہ آپ کے پاس کون سی روحانی طاقت ہے ؟ آپ یہ سب کیسے کر لیتی ہیں ؟‘‘
اماں جان نے کہا اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان توکل اور صبر وہ صفات ہیں جن کی مدد سے آدمی مشکل ترین حالات سے بخیرو خوبی گزر سکتا ہے ۔
ڈاکٹر احمد فاروق نے جہاز چارٹر کر کے میت کو نیویارک پہنچایا۔ اسی اثنا میں پورے امریکا میں مختلف ٹیلی ویژن چینلز سے اباجان کے انتقال کی خبر نشر کی جا چکی تھی ۔اس لیے نیویارک ایئرپورٹ پر بڑی تعداد میں مسلمان جنازے میں شرکت کے لیے پہنچ گئے ۔ احمد فاروق نے اماں جان کو پسنجر لائونج میں لے جا کر بٹھا دیا ۔ابھی وہ وہاں بیٹھی ہی تھیں کہ بہت ساری پاکستانی ،ہندوستانی ،ترک اور عرب ممالک کے علاوہ دوسرے مسلم ممالک کی خواتین وہاں آ گئیں ۔ان کے مرد باہر جنازہ پڑھنے کے لیے کھڑے تھے ۔کچھ پاکستانی خواتین نے جو اماں جان کے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھیں آپس میں باتیں کرنا شروع کرد یں کہ بفیلو سے باڈی (یعنی میت) آنی ہے پتا نہیں باڈی پہنچی ہے یا نہیں ؟
اماں جان نے کہا کہ باڈی پہنچ گئی ہے ! ان عورتوں نے چونک کر اماں جان کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ آپ کو کیسے پتا چلا ہے کہ باڈی پہنچ گئی ہے۔ اُنھوں نے بڑے اطمینان سے جواب دیا :’’ میں باڈی کے ساتھ آئی ہوں۔‘‘
عورتوں نے پوچھا کہ آپ کا ان سے کوئی تعلق ہے ؟ جواب ملا ’’وہ میرے شوہر تھے ‘‘۔
وہ عورتیں چیخ پڑیں : ’’ہیں بیگم صاحبہ آپ اتنے اطمینان سے اتنے سکون سے اتنا بڑا صدمہ دل میں لیے بیٹھی ہوئی ہیں ۔ہم اور ہمارے مرد سارا راستہ روتے ہوئے آئے ہیں ۔آپ کو دیکھ کر تو اللہ یاد آ گیا اور پھر آہستہ آہستہ ان ساری ترک ،انڈونیشی ، عرب اور افریقی خواتین کو پتا چل گیا کہ یہ خاتون مولانا مودودی کی بیگم ہیں ۔ ان سب نے اماں جان سے تعزیت کی اور سب نے کہا کہ صبر تو اسی کو کہتے ہیں ۔ یہ جنازہ جگہ کی تنگی کی وجہ سے چھہ مرتبہ ہوا۔
مجھے اکثر اباجان کی کہی کوئی بات یاد آتی ہے جواُنھوں نے میرے ماموں خواجہ محمد شفیع مرحوم سے کہی تھی۔ اس وقت اماں جان بہت بیمار تھیں اور ماموں ان کی خیریت دریافت کرنے آئے تھے ۔اباجان نے کہا: ’’جب لوگ نعرے لگاتے ہیں مولانا مودودی زندہ باد ! جماعت اسلامی زندہ باد! تو میں اپنے دل میں کہتا ہوں محمودہ بیگم زندہ باد۔ جب کوئی فوج فتح مند ہوتی ہے تو اس کے سپہ سالار کو ہار پہنائے جاتے ہیں تو اس وقت اس گمنام سپاہی کو کون یاد کرتا جس نے اپنی جان کی بازی لگا کر فتح کو ممکن بنایا ہوتا ہے ۔زندہ باد کے فلک شگاف نعروں میں کسی کی بے نفسی، خودداری، وفاداری، دلداری اور اپنی ذات کی نفی کس کو یاد رہتی ہے ۔
روایت ہے کہ مولانا روم کے مرض الموت میں ایک عالم دین ان کی عیادت کے لیے آیا اور کہنے لگا کہ فکر نہ کیجیے ان شاء اللہ شفا ہو گی !مولانا روم نے کہا: ’’اب شفا آپ کو مبارک ہو بال برابر فرق رہ گیا ہے۔ پھر نور نور میں شامل ہو جائے گا اور مٹی مٹی میں چلی جائے گی ۔‘‘
اباجان نے ۲۲ ستمبر ۱۹۷۹ کو رحلت فرمائی اور اماں جان ۴ ؍اپریل ۲۰۰۳ کو بروز جمعہ رات ۸ بج کر ۲۰ منٹ پر اس جہان فانی سے رخصت ہوئیں اور اگلے دن بروز ہفتہ سوا گیارہ بجے مٹی میں جا ملیں۔ انا للہ وانا علیہ راجعون۔ میں امی جان کے پسندیدہ شعر پر ۔یہ سرگزشت ختم کرتی ہوں ؎

سوئیں گے حشر تک کہ سبکدوش ہوچکے
بارِ امانت غم ہستی اتار کے

٭…٭

تحریر: حمیرا مودودی