بیسو یں صدی کے متعد دمسلما ن دانش ور یو رپی جا ر حیت کے خلا ف زندگی کے ہر دائر ہ کا رمیں نبرد آزما رہے ہیں۔سید ابوالاعلیٰ مودودی (۱۹۰۳ء ۔۱۹۷۹ء )کا شما ر بھی ان مسلم دانش وروں میں ہو تا ہے جنھو ں نے یو رپ کی اس جارحیت کے خلا ف ایک سیاسی،تہذیبی اور فکر ی حکمت عملی تشکیل دینے کے لیے مسلما نو ں کویکجا ہو نے کی دعوت دی اور کہا کہ مسلما ن اس صدی میں جس تبا ہی سے دو چا ر رہے ہیںاس کی بنیا دی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے اتحا د کی قوت کو پا رہ پا رہ کرچکے ہیں۔ فکر ِمودودی کی اس جہت کو ان کی بر پا کی جا نے والی تحریک جما عت اسلا می میں دیکھا جاسکتا ہے۔
سید ابو الا علیٰ مو دودی اتحا د اسلا م کے داعی ابتدا ہی سے تھے۔انھو ں نے نو جو انی کے عالم میں سلطنت عثما نیہ کی قوت کو ختم ہو تے ہوئے دیکھا تھا اس لیے ان کی یہ کو شش رہی کہ جنو بی ایشیا کے مسلما نو ں کوملت کے تصور سے روشنا س کر ایا جائے اور انھیں یہ بتا یا جا ئے کہ ان کی اس عظیم الشا ن اسلا می قوت کا حشر کس سیا سی گٹھ جو ڑ کی بنا پر ہوا ۔انھو ں نے مسلمانوں کو یہ با ور کرا نے کی کامیاب کوشش کی کہ اپنی تبا ہی پر نا لا ں ہونے کے بجا ئے ان محرکات و عوامل سمجھاجا ئے۔سید مو دو دی کی ابتدا ئی سیاسی زندگی کی تشکیل میں تحر یک خلا فت کے اثرات نما یا ں تھے۔اس تحریک کے ابتدا ئی زما نے میں وہ اخبا ر تاج کے مدیر تھے جو جبل پو رسے نکلتا تھا۔اس دوران مو لا نا نے جبل پو رمیں تحریک خلا فت کو فعا ل کیا اور اس کے جلسو ں میں تقریریں کیں۱۔
سلطنت عثما نیہ کو پا رہ پا رہ کر نے کے لیے یو رپی قو تو ں نے پہلا الزام یہ لگا یا کہ عثما نو ی عمل داری میں موجوداقلیتیںغیر محفو ظ تھیں۔خصو صاً شورش آرمینیا ۲کا الزام لگا کریو رپ میں جھو ٹے قصے اور افسا نے گھڑے گئے اور ترکوں کے خلا ف یو رپی قو تو ں کو صف آرا ہونے کی تلقین کی گئی۔یو رپی قوتو ں نے حقا ئق کی چھا ن پھٹک کر نے کے بجا ئے ان غلط بیا نیو ں پر ایما ن رکھتے ہو ئے کہا کہ تر کی میں عیسا ئی انسا نی حقو ق سے محروم ہیں اور عہد رومی کی طر ح غلا می کی حالت میںزندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ان الزا ما ت کو پروان چڑ ھا نے کا مقصد یہ تھاکہ یو رپی قو تو ں کو تر کی میں مدا خلت کر نے کا جواز فراہم کیاجا ئے۔مگر جب اہل یو رپ کو مقدو نیہ اور کر یٹ(اقریطش)میں تر کو ں کی حا لت زار کی جا نب توجہ دلا ئی جاتی تھی تو وہ ان حقائق سے منہ مو ڑ لیتے تھے۔مو جو دہ صدی میں یو رپ اور امر یکا نے عراق میں جس اندازسے جھو ٹے الزام لگا کر پورے مشر ق وسطی کو آگ میں جھو نک دیا ہے یہ اسی جھو ٹ کے تسلسل کا ایک حصہ ہے جسے یو رپ کے کارپر دازان سیا ست دور استعمارسے آزما رہے ہیں۔
خلا فت عثما نیہ پر لگا ئے گئے ان الزا ما ت کا جواب ہندوستا نی مسلم دانش ورو ں نے بھر پو رانداز میں دیا تھا ۔سید مودودی نے بھی اس حوالے سے دو اہم کتا بو ں کا انگر یز ی سے اردو میں تر جمہ کیا تھا۔ان میں پہلی کتا ب سمر نا میں یو نا نی مظالم۳ (Greek Atrocities in the vilayet of Smyrna) ہے جب کہ دوسری تر کی میں عیسا ئیو ں کی حا لت ہے۔تذکر ہ سید مو دودی میں رفیع الد ین ہا شمی صا حب نے لکھا ہے کہ انھو ں نے تر کی میں عیسا ئیو ں کی حا لت کے با رے میں سید مو دودی سے استفسا رکیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ کتا ب کسی ایک کتاب یا رسالے کا تر جمہ نہیں ہے بلکہ مختلف کتا بو ں ،رسا ئل اور اخبا را ت سے متفر ق تحریریں لے کر ان کا تر جمہ اس رسالے میں جمع کر دیا گیا تھا۴۔
یہ دو نو ں کتا بیں دارلا شا عت سیا سیا ت مشر قیہ دہلی سے شا ئع ہو ئی تھیں۔ڈاکٹر سید عبد البا ری نے لکھا ہے کہ مو لا نا نے اپنی تصنیفی زند گی کا آ غاز جن کتا بو ں کے تر اجم سے کیا ان میں پہلی کتا ب سمر نا میں یو نا نی مظا لم تھی۵۔تحریک خلا فت اور مو لا نا محمد علی جوہر( ۱۸۷۸ء ۔۱۹۳۱ء )سے سید مو دودی کو ایک گو نہ لگا ئو تھا۔اس کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ سید محمد جعفری صا حب نے تحریک خلا فت کے حوالے سے شو کت علی اور محمد علی کے نام سے مجمو عہ علی برادران مر تب کیا تو اس کے لیے جن حضرا ت سے مقالا ت لکھوائے ان میں سید مو دودی بھی شامل تھے۶۔
سید محمد جعفری کی مر تبہ علی برادران سے قطع نظر سیدمودودی نے محمد سرور کی کتا ب مضا مین محمد علی (حصہ اول )پرجو ہر کی شخصیت پر جو تبصرہ کیا تھااس سے ان کی عقیدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اس مختصر سی تحر یر میں انھوں نے محمد علی جو ہر کی فکر ی بصیر ت کو نمایاں کر نے کی کو شش کی تھی اور کہا کہ جو ہر کی شخصیت سے اسلا م اپنی اصلی صورت میں نظر آ نے لگا تھا۔مگر ہندوستا ن میں انھو ں نے جس مسلم قو میت کو پیدا کر نے کی کو شش کی وہ ترقی کر کے مسلم قوم پر ستی میں تبدیل ہو گئی۷۔
محمد علی جو ہر کی خود نو شت سوانح عمری My life: A Fragmentکے با رے میں سید مو دودی نے لکھا کہ جوہرؔ ان غلط فہمیو ں کا ازا لہ کر نا چا ہتے تھے جو اسلا م اور مغرب کے درمیان پیدا ہو گئی تھیں کیو ں کہ کتا ب کے اکثر مقا ما ت سے ظاہر ہو تا ہے کہ جو ہر اسلا م کے ہمہ گیر نظر یہ حکو مت کو پیش کر نا چا ہتے ہیںاور وہ انسان کو اللہ کے نا ئب کی حیثیت سے دیکھتے تھے۸۔
عثما نو ی خلا فت کے زوال کو سید مو دودی نے عالم گیر اسلا می مر کز کے خا تمے کی حیثیت سے دیکھا تھااور وہ اس نقصا ن کی اہمیت کو سمجھتے تھے۔محمد مرزا دہلو ی کی کتا ب اتا ترک پر تبصرہ کر تے ہو ئے تر کی زبا ن کی تبد یلی اور فکری منہا ج کے تبدیل ہو نے پر انھو ں نے گہرے تا سف کا اظہا ر کیا۔وہ لکھتے ہیں کہ:
کا ش اتا تر ک نے قرآن اور سیرت محمد ی کا مطا لعہ کیا ہو تا اور ترکی قوم پر ستی کے بجا ئے اسلا می آئیڈیا لو جی کی بنیا د پر جد ید تر کی کی تعمیر کی ہو تی۔ اس کو اگر معلو م ہو تا کہ ایک محدود قو میت کی طاقت اور عالم گیر تبلیغی مسلک کی طا قت میں کتنا تفا وت ہو تا ہے تو وہ اپنی قوم کو پو لینڈ ،ہا لینڈ اور بیلجیم کی سی پو زیشن میں چھو ڑ کر نہ جا تا۔بلکہ روسی اشترا کیت سے بیس گنی زیا دہ زبردست طا قت کے ساتھ چھوڑتا۹۔
سید مو دو دی نے سمر نا میں یو نا نی مظا لم میں یو نانی فو ج نے جو ہول نا ک مظا لم کیے تھے ان کے معتبر تر ین ذرائع سے حا صل کیے ہوئے مفصل حا لا ت کا تر جمہ کیا تھا۔یہ کتا ب چا لیس رپو ر ٹو ں اور مرا سلا ت کے تر جمو ں پر مبنی ہے۔جنھیں اتحادی افسرو ں ،یو رپین با شند وں ،ترکی افسرو ں اور خو دسمر نا کے مظلو م مسلما نو ں نے دو لت عثما نیہ کی وزارت دا خلہ اور یورپین اخبا رات کو بھیجے تھے۔
یہ دو نو ں کتا بیں اب ما ضی کا حصہ ہو چکی ہیں مگر ان کی تا ریخی اہمیت اپنی جگہ بد ستو رقا ئم ہے۔جنگ سمر نا اور ترکی پر حو ادث کے اثرات سے مسلما نا ن ہند کی تا ریخ اور تہذ یب اس طر ح پیو ست ہے کہ اس سے آج بھی ہما رے تخیل اور ہماری تاریخ کو جدا نہیں کیا جاسکتا۔اگر اسلا م پسند طبقہ سلطنت عثما نیہ کی محبت میں گر فتا ر ہے تو جدید خیالا ت رکھنے والے جدید تر کی کو اپنا مثا لیہ بنا کر پیش کر تے ہیں۔
عثما نیو ں اور یو نا نیو ں نے سمر نا کے حو الے سے دو جنگیں لڑ ی ہیں۔ ان کی آخر ی لڑا ئی۱۹۱۷ء میں ہو ئی جس میں تر کی کا میاب ہو امگر یو نا نیو ں نے سمر نا میں جس طر ح مظا لم ڈھا ئے اس نے تر کو ں کے جذ بہ حریت کو کئی گنا تو انا کر دیا تھا۔تر ک خو دبھی جفا کش اور جنگ جو رہے ہیں ان کی اسی ہمت نے انھیں یو رپی قو تو ں کے لیے ایک مشکل ہدف ثابت کیا۔
سمر نا میں یو نا نی مظا لم کے تعلق سے مولانسا مو دودی نے ان رپو رٹو ں کے تر جمو ں کے علا وہ اس میں ایک نہا یت عمدہ مقد مہ بھی لکھا تھا جس سے اس شہر کی تا ریخی اور تہذ یبی اہمیت بھی اجا گر ہو تی ہے۔اس مقد مے میں تر کو ں سے مولانامودودی کی گہر ی محبت بھی عیاں ہے۔تر کی میں عیسا ئیو ں کی حا لت میں دیبا چے میں لکھتے ہیں کہ:
یہ رسا لہ در ا صل یو رپ کے لیے لکھا گیا تھا ۔یو رپ کہ لو گو ں کو ارمنو ں،یو نا نیو ں اور خو دیو رپ کے دسیسہ کا ران سیا ست نے جھوٹے قصو ں،نا ولو ں ،رسا لو ں ،اخبا رو ں ،تقر یر وں اور دوسرے تبلیغی ذرائع سے تر کو ں کے خلا ف ابھا ر کر جس قدر انھیں نقصا ن پہنچا ئے ہیںان کی تلا فی کے اور طریقوں میں سے ایک طر یقہ یہ بھی ہے کہ ان کو اصل حقیقت سے آگا ہ کر دیا جا ئے اور وثا ئق و حقائق ان کے سا منے رکھ کر ان کو بتلا دیا جا ئے کہ تر کی محکو م اقوام کے معا ملے میںخود یو رپ سے بدرجہا روادار ،منصف اور کر یم ہے۱۰۔
سید ابو الا علی مو دودی نے اس کتا ب کا تر جمہ کرنا اس لیے بھی ضر وری سمجھا کہ خو دہند وستا ن میں انگر یز ی خواں طبقے نے مسلما نو ں میں تر کی کے حو الے سے جھو ٹی خبریں اور غلط افو اہیں پھیلا نا شرو ع کر دی تھیں۔وہ تر کو ں کو ظا لم ،متعصب اور سخت گیر مشہو رکر تے تھے۔خا ص کر سلطا ن عبد الحمید دوم(۱۸۴۲ء۔۱۹۱۸ء) کے حوا لے سے بے بنیا د الز اما ت کو فر وغ دیا گیا۔ان الزا ما ت کو نادان او رکم زور ذہن رکھنے والے سچ بھی ما ن لیتے تھے۔
مو لا نامو دودی نے تر کی میں عیسا ئیو ں کی حا لت بیا ن کر نا اس لیے بھی ضروری خیا ل کیا کہ ہندوستا نی عر صہ دراز سے صو با ئی خودمختاری طلب کر رہے تھے جب کہ دنیا کی سب سے زیا دہ مہذ ب کہلا نے والی بر طا نو ی حکو مت اسے دینے سے مسلسل انکا ر کر رہی تھی۔حالا ں کہ تر کو ں نے صدیو ں سے ہر غیر مسلم قوم کو مکمل خو دمختا ری دے رکھی تھی۔وہ اس کتاب میں یہ بتا نے کے بھی خو اہا ں ہیں کہ ترکوں نے وہا ں کے عیسا ئیوں کو جس طر ح مذ ہبی آزادی فرا ہم کی تھی وہ ہندوستا نی مسلما نو ں کو بر طانو ی سا م راج دینے کے لیے آما دہ نہیں تھاجب کہ تر کو ں نے اپنی عمل داری میں پا نچ صد یو ں سے یہ حقوق اقلیتوں کو دیے ہوئے تھے۱۱۔
تر کی میں عیسا ئیو ں کی حا لت کے دو ابواب ہیں جس کے ذیل میں چند عنوانا ت کے ذریعے مصنف نے بیسویں صدی میں تر کو ں کے یہا ں اقلیتو ںکی انسا نی و قا نو نی مراعا ت کی وضا حت کر دی ہے جس میںمذ ہبی ،دستو ری،ملکی و قا نو نی اور سیاسی حقو ق شا مل ہیں۔اس کتاب کی تمہید میں متر جم نے تر کی میں عیسا ئیو ں کی حالت پر اپنی رائے کا اظہا ر ان الفا ظ میں کیاہے:
تر کی میں عیسا ئی با شند ے اس قدر خو ش حا ل اور قا نو ن کی رو سے اس قدر آزاد ہیں کہ اتنی خو ش حالی اور آزادی تر کو ں کو بھی حا صل نہیں ،اقلیتو ں کو تر کی کی حکو مت کی طر ف سے اس قسم کی مراعات حا صل ہیں کہ وہ اپنے مذ ہبی پیشو ائو ں کے ما تحت اپنا اندورونی انتظام خو دکر تے ہیں۱۲۔
اس کتا ب میں سلطنت عثما نیہ میں سیا سی و سفا رتی خد ما ت انجا م دینے والے کئی اہم لو گو ں کے بیا نا ت کو بھی شا مل کیاگیا۔جو اس بات کی گو اہی دیتے ہیں کہ جو رعا یت اور خا ص حقو ق عیسا ئی با شند وں کو سلطنت میں حاصل تھے وہ خا لص مذ ہبی تھے اور مذ ہبی آزادی کی حیرت انگیز مثا ل پیش کر تے ہو ئے دکھا ئی دیتے تھے۔تما م اقوام کو نہایت وسیع پیمانے پر حقوق حا صل تھے اور ایک طر ح سے انھیں اپنی اندورو نی و عا ئلی ز ندگی میںایسی خو دمختا ری حا صل تھی جو کسی دوسری سلطنت نے اپنی رعا یا کو عطا نہیں کی تھی۱۳۔
تر کی میں عیسا ئیو ں کی حا لت میںمصنف نے یو رپی قو تو ں کو تنقید کا نشا نہ بنا تے ہو ئے لکھا ہے کہ بیسو یں صدی میں حق اور انصا ف کو ہر جذ بہ پر غا لب رہنا چا ہیے مگر یو رپی اقوام مذ ہبی تعصب کی بنیا د پر غیر اقوام پر جھو ٹے الزا ما ت لگا تی ہیں اور تر کو ں پر لگایا جا نے والا یہ الزام کہ وہ اپنے ملک میں اقلیتو ں کا تحفظ نہیں کر تے بالکل بے جا ہے کیو ں کہ تر کو ں کی تا ریخ یہ بتا تی ہے کہ ان کی عمل داری میں تعداد میںقلیل اقوام ہمیشہ خو ش رہی ہیں۱۴۔کتا ب کے پہلے باب میں مصنف نے عثما نو ی دستو ر کی مثا ل دیتے ہو ئے کہا ہے کہ:
عثما نو ی دستو ر کی گیا رہو یں دفعہ میں ہم کو یہ الفا ظ نظر آ تے ہیں کہ سلطنت عثما نیہ میں ہر مذ ہب و ملت کے لوگوں کو اپنے اعما ل مذ ہبی میں کا مل آزادی حا صل ہے ۔بہ شر طے کہ وہ امن عا مہ کے خلاف نہ ہو ں۱۵۔
اس کتا ب میںمصنف نے سلطنت عثما نیہ کے کر دار کا جا ئز ہ لیتے ہو ئے دنیا کو یہ با ور کر انے کی کو شش کی ہے کہ مو جو دہ عہد میں مغربی اقوام نے جس انداز میںجدید تہذ یب کے علم کو بلند کیا ہے کیا اس کے نتا ئج دنیا پر وہی ہیں جیسے بیا ن کیے جاتے ہیں۔جب کہ حقیقت اور عمل کچھ اور ہی بیا ن کر تے ہیں۔کیو ں کہ خو دمغر بی اقوام میں مذ ہبی منا فرت اور فر قہ واریت جس تیز ی سے سرا یت کر رہی ہے اس کی بنیا دیں تا ریخ میں اس سے زیا دہ گہری رہی ہیں۔
مصنف نے چند مثا لیں پیش کر تے ہو ئے لکھا ہے کہ ایک لو تھرین کو کیتھو لک ہو جا نے پر جلا وطنی اور جا ئد اد ضبط کیے جانے کی سزا سنا ئی گئی،یو نا نی قا نو ن تبد یل ِمذہب کو رو کتا ہے۔پو لینڈ میں گر یک چر چ کے خلا ف جو سخت احکا ما ت جاری ہو ئے وہ دنیا کے سامنے ایک مثال ہیں۔بیسو یں صدی میں بر طا نیہ میں لا مذ ہبو ں کو پا رلیمنٹ میں جگہ نہیں دی جا تی تھی۱۶۔
ان مثا لو ں کو پیش کیے جا نے کا مقصدیہی تھا کہ سلطنت عثما نیہ پر لگا ئے گئے الزا ما ت کو رد کیا جا ئے کیو ں کہ عثمانو ی عہد میں یو نا نی ،ارمن،یہو دی،لا طینی ایک بڑی حکو مت کے اندر اپنی اپنی جدا حکو متیںرکھتے تھے۔ہر ایک اپنی مذ ہبی آزادی کے مطا بق اپنی زندگی بسر کر سکتا تھا۔اس کتا ب کے با ب اول میں اس کی کئی مثا لیں دیکھی جا سکتی ہیں کہ وہا ں غیر اقوام کو کس طرح کے حقو ق حا صل تھے۔ان حقو ق کے علا وہ اقلیتو ںکو اور کیا بنیا دی سہو لیا ت میسر تھیں اس کی بھی تفصیلا ت ہمیں ملتی ہیںان کی عبا دت گا ہو ں کو ملنے والی مراعات کی بھی تفصیلا ت اس کتا ب میں مو جو دہیں۱۷۔
سید ابو الا علی مو دودی کی اس کتا ب میں یہ با ت کہ سلطنت عثما نیہ میں اقلیت اس کی حدود میں ریا ست کے در جے میں رہتے تھے اس کا اظہا ر ترک محقق صا دق البیراک نے تر کی زبا ن میں Turkia yeide Din kavgasiکے نا م سے مختصر سی کتا ب میں بھی لکھی۔اس کا انگریز ی میں تر جمہ پا کستا نی اسکا لر محمد خا ن کیا نی نے Religious struggle in Turkey During the transformaition from Caliphate to Secular republicکے نا م سے کیا تھا جو استنبول میں شائع ہو ئی۔اس میں صا دق البیراک نے لکھا ہے کہ ۱۸۳۹ء میں گلہین پا رک(Gulhane Park)نا می اصلا حا ت عثمانیوں کے یہا ں متعا رف ہو ئی۔ان اصلا حا ت کے ذریعے مغر بی خیا لا ت و ثقا فت کا رخ تر کی معا شرے کی جا نب کر دیا گیا۔یو رپی قوتو ں کا خیال تھا کہ ایسا کر نے سے خلا فت اور اتحا دِ بین المسلمین کا تصو ر ان کے یہا ں نا پید ہو جا ئے گا اور Cosmopolitan Ottomanismکا زما نہ آئے گا۔ان اصلاحات اور تصور کے ذریعے دولت عثما نیہ میں اقلیتو ں کو مستحکم انداز میں ابھر نے کا مو قع ملے گا۱۸۔
یو رپی قو تو ں نے عثما نیو ں کو اس معا ہدے کے بعد اتنا دبا یا کے رشید پا شا کے دور میں مسلمانو ں کی حق تلفی کر کے اقلیتوں کو خو ش کرنے کے لیے زیا دہ مرا عات دی گئیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سلطنت عثما نیہ کے حدود میںآبا د عیسا ئی اور یہودی اور دیگر اقوام ریا ست کے اندر ریاست State within Stateکی حیثیت اختیا ر کر گئے۔عیسا ئیو ں نے سفا رتی ذرائع استعما ل کر کے وہ مرا عات حا صل کر لیں جو ان کے اجداد تلوار کی نو ک پر بھی حا صل نہ کر سکے تھے۔سلطنت عثما نیہ ان حا لا ت میں غیر معمو لی دبا ئو کا شکا رتھی۔معا شی اور فو جی امداد کی پیش کش کے عو ض عالمی طا قتو ں نے سلطنت عثما نیہ میں بسنے والے عیسا ئیو ں اور دیگر اقلیتو ں کے لیے زیا دہ سے زیا دہ مراعا ت کو یقینی بنا یا ۔کریمیا کی جنگ کے بعد ۱۸ فروری ۱۸۵۶ء کو Hatt-i-Humayunنے جو فر مان جا ری کیا اس نے دو لت عثما نیہ کے غیر مسلمو ں کو مسلمانو ں کے برابر لا کھڑا کیا۱۹۔
سلطنت عثما نیہ کو اندورونی طو رپر کمزو ر کر نے کے لیے یو رپ کی عیسا ئی طا قتو ں نے اقلیتو ں کا سہا را لیا۔املا ک کو تبا ہ کرنے یا اس پر قبضہ کر نے کی سازش بھی کی گئی اور اس میں یو رپی قو تیں کا فی حد تک کا میا ب ہو ئیں۔ہر جنگ کے بعد سلطنت عثما نیہ کو کچھ زمین اور اچھی خاصی دولت سے محر وم ہو نا پڑا۔تر ک خزانے لو ٹ لیے گئے ،مسا جد اور مدارس کو شہید کردیا گیا۔ان میں جو ئے کے اڈے اور رقص گا ہیں ،شراب خا نے یا اصطبل کھو ل دیے گئے۔لا کھو ں مسلما نو ں کو قتل یا بے گھر کر دیا گیااور خو اتین کی بے حر متی کی گئی۲۰۔
سید ابو الا علی مو دو دی نے کتا ب کے آخر میں تر کی میں مختلف اقوام کی نسبت اعدا دو شما ربھی پیش کیے ہیں۔جن میں یورپین تر کی ،ایشیا ئے کو چک،ولا یت سمر نا،ارمن ولا یت شا مل ہیں۔یہ اعدادو شما رمشہو ر فر نچ جغرا فیہ دان مو سیو وٹا ل کوئنٹ نے اپنی کتا ب ترکی ڈی ایشیا میں پیش کی تھیں۲۱۔
سید ابو الا علی کا تر جمہ سمر نا میں یو نا نی مظا لم جو مختلف رپو رٹو ں پر مبنی ہے۔ یہ رپو رٹ اتحا دی حکو متو ں (امریکا،برطانیہ، فرا نس، اٹلی) کے مقرر کر دہ کمیشن کی تحقیق پر مبنی ہے جو لو زین کی انجمن عثما نیہ نے شا ئع کی تھی۔یہ کتاب بھی اردو خواں طبقے کے لیے کئی لحا ظ سے اہم ہے۔اس میں سیدمو دودی نے جا مع مقد مہ بھی تحریر کیا ۔یو نا نیو ں کا دعویٰ یہ تھا کہ سمر نا میں یو نا نیو ں کی تعداد تر کو ں سے زیا دہ ہے اس لیے اس پر اہل یو نا ن کا حق ہے۔سید مو دو دی نے اس دعوے کی نفی کرتے ہو ئے سمر نا میں بسنے وا لی مختلف اقوام کی آبا دی کا جا ئز ہ بھی پیش کیا تھا۔جس سے یو نا نی قوم کے دعوے کی نفی ہوتی تھی۔
شہرِ سمر نا چو ں کہ ایسا سمندری راستہ تھا جسے عثما نی تر کو ں سے چھین لینے کا مطلب یہ ہو تا کہ وہ ساری دنیا کے دست نگر بن کر رہ جائیںاور پھر بر طا نو ی حکو مت ان سے اپنے مطا لبا ت منوا نے میں کامیاب ہو سکے۔جنگ سمر نا کے مو ضو ع پر ہندوستا نی دانش وروں کی ایک کثیر تعداد ایسی تھی جس نے بر طا نو ی حکمت عملی کو نہا یت مکروہ قرار دیا۔ان کے مضا مین اور کتابو ں کے تراجم ان خیا لا ت کی تر جما نی کر تے ہو ئے دکھا ئی دیتے ہیں۔سید ابو الا علی مو دودی کی یہ کتا ب اب کم یاب ہے اس کے مو ضو عات بھی وقت گز رنے کے ساتھ پرانے ہو چکے ہیں مگر اس وقت کی صورت حا ل اور عثما نیو ں اور یو نا نیو ں کی تاریخ کا مطا لعہ کر نے والو ں کے لیے اس کامطالعہ بھی اہم ہے۔کیو ں کہ اس میں مو جو دتا ریخی حقائق یو نا نی در اندازی کی وجوہا ت پر روشنی ڈالتے ہو ئے نظر آتے ہیں۔خا ص طور پر بر طا نو ی کر دار اس سلسلے میں کیا رہا تھا اس کو ایک جگہ بیا ن کرتے ہو ئے مو لا نا نے لکھا ہے کہ:
انگر یز اگر چہ اسلا می مما لک پر قبضہ کر نے میں بہت کم تا مل کرتے ہیں۔مگر مسلما نو ں کو احمق بنا نے کے لیے وہ بعض مما لک پر خودقبضہ کر نا منا سب نہیں سمجھتے اور دوسری چھو ٹی چھو ٹی ریا ستو ں کو اکساتے ہیں ،یہی حا ل سمر نا کا تھا۔اگر چہ انھو ں نے خوداس پر قبضہ نہیں کیا لیکن وہ یو نا ن کے قبضے کو بھی اپنے ہی قبضے کے برا بر سمجھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بر طا نو ی کو نسل نے نہایت آزادی کے ساتھ یونان کے مقبو ضہ علا قے میں ایک ارمن کا فیصلہ کر دیا۲۲۔
وہ تما م رپو رٹیں جو اس کتاب میں درج کی گئی ہیں مختلف ذرائع سے حا صل کی گئیں تھیں۔جن سے سمرنا پر یو نا نی قبضے کے بعد کی صورت حال سا منے آجا تی ہے۔سمر نا کی تا ریخ پر جتنی کتا بیں لکھی جا ئیں ان میں اس کتا ب کو ضرور حوا لے کے طور پر دیکھا جا نا چا ہیے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس میں ایسی رپو رٹیں بھی شا مل ہیںجو مختلف سیا سی ،سما جی اور صحا فتی خدمات انجا م دینے والو ںنے دیکھی تھیں جیسے کپتان ڈکسن جا نسن (Dixson Johnson)سمر ناسے ۲۱ ؍مئی ۱۹۱۹ء کو خط میں لکھتا ہے کہ جب تر ک افواج بیر کو ں میں واپس چلی گئیں تو یونانی انھیں بیرکوں سے واپس نکا ل لا ئے اور ہر اس شخص کو قتل کر دیا جس نے زیٹو دینی زیلو س (Zeto Ve nizelos)کا نعرہ نہیں لگایا۔ڈکسن جانسن نے اور بھی دو خطو ط سمر نا کے حوالے سے لکھے تھے،وہ ان واقعات کا عینی شا ہد تھا۔کیو ں کہ سمرنا کے یو نا نی قبضے کے دوسرے دن وہ وہا ں پہنچا تھا۔اس نے یہ خطو ط لندن میںمو جو ددفاع اسلا م کے نام پر بھیجا تھا۲۳۔
مو دودی صاحب نے عثما نی تر کو ں کے کردار پر اپنی کتا ب تنقیحا ت میں خا لدہ ادیب خانم کے خطبا ت کے مجموعے تر کی میں مشرق و مغرب کی کش مکش کے حوالے سے اظہا ر خیا ل کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ترکی کی نئی نسل جس نے خلا فت کے ادارے کا خا تمہ کر دیا اب وہ مادہ پر ستی،دہریت،مغرب سے کا مل مر عو بیت،مغربی تخیلات کی اندھی تقلید کر رہی ہے وہ اسلا می وحدت اور قدیم چیز وں سے بے زاری کا اظہا ر کر رہے ہیں۔ان کے دل میں یہ خیال راسخ ہو گیا ہے کہ اگر تر قی کر نی ہے تو با لکل مغربی طرز پر چل کر ہی تر قی کا قصر تعمیر کر نا پڑے گا۲۴۔سید مو دودی نے اس رویے پر وہا ں کے علما کو بھی تنقید کا نشا نہ بنا یا ہے ان کا یہ کہنا درست تھا کہ بد لتے ہو ئے حا لا ت میں تر کی علما نے وہ کردار ادا نہیں کیا جس کی اس وقت ضرورت تھی۔
وقت گز رنے کے سا تھ مو لا نا مو دو دی کی یہ با ت درست ثا بت ہو ئی۔تر کو ں نے نہ صرف اپنے رسم الخط کو تبدیل کر دیا ‘بلکہ معاشرتی بنیا دو ں میں اسلا م بے زاری کو فر وغ دیا ۔اس انتہا پر جا نے کے با وجو د بھی تر کو ں کے دل میں اسلا م کی محبت کو مٹا یا نہیں جا سکا‘جس کی مثا ل آج کے تر کی میں دیکھی جا سکتی ہے۔حا ل ہی میں تر کی کے صدر طیب اردوگان نے تہذ یبو ں کے اتحا د کے نا م سے اقوام متحد ہ کے ادارے میں ویا نا کے ہا ف بر گ پیلس میں تقریر کر تے ہو ئے کہا ہے کہ:
ہما ری تو جہ ان جھگڑ وں پر مسلسل مر کو ز رہنی چا ہیے جو ایشیا اور افریقا میں چل رہے ہیں۔خاص طور پر بلقا ن اور مشر ق وسطی میں پائے جا تے ہیں۔اسی کے ساتھ ساتھ وہ خو ابیدہ خطرات بھی جو دنیا کے ممکنہ جنگو ں میں مو جو دہیںہما ری نظرو ں سے اوجھل نہیںہو نے چاہئیں۔بد قسمتی سے شا م کے معاملے میںجد ید دنیا اس امتحا ن پر پو ری نہیں اترسکی۔ہمیں علم ہے کہ گزشتہ دو سالو ں میں ستر ہزا ر کے قریب لوگ اپنی جا نو ں سے ہا تھ دھو بیٹھے ہیں۔یہ با ت کہ دنیا نے اس صورت حا ل پر کوئی خاص ردعمل ظا ہر نہیں کیا۔احسا س انصاف کو سنگین طو رپر پر مجر وح کر تاہے۔اسی طر ح تہذیبو ں کے اتحا د کے رو بر و یو رپ میں بڑ ھتی ہو ئی نسل پر ستی پُر مسا ئل شعبہ ہے۔مز ید بر آں ،مسلم مما لک سے لا تعلقی کے ساتھ ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ جو مسلما ن اپنے ملک کے علا وہ کسی دوسرے ملک میں سکو نت پذ یر ہیں تو انھیں درشت،معا ندانہ اور ہتک آمیز رویو ں کا سامنا ہے۲۵۔
طیب اردوگا ن نے اس رویے پر سخت تنقید کی اور کہا کہ یہ ایک نا معقول عمل ہے جو دنیا بھر میں جا ری ہے۔ہماری کوشش ہو نی چاہیے کہ دیگر لو گو ں کے عقا ئد اور ثقا فتو ں کے بارے میںمعلو ما ت حا صل کر یں۔اس کے بر عکس ہم دیکھتے ہیں کہ لو گو ں کے عمل کی بنیا د تعصب ہے اور وہ دوسروں کا مقا طعہ کر تے ہیںاور ان سے نفرت بر تتے ہیں۔اسی وجہ سے یہ انتہا ئی ضرو ری ہے کہ ہم صیہو نیت ،سام دشمنی اور فسطا ئیت کو بھی انسا نیت کے خلا ف ایک جرم قرار دیں۔انھو ں نے ذرائع ابلا غ پر نکتہ چینی کر تے ہو ئے اس کے کر دار کو نفر ت اور اشتعا ل دلا نے والا قراردیا اور کہا کہ اس عمل سے تعصب کی بنیا دیں مضبو ط ہوجا تی ہیں۲۶۔
طیب اردوگا ن کے خیا لا ت مو جو دہ تر کی کے سیا سی کر دار کو بھی وا ضح کر تے ہیں۔مشر ق وسطی میں ما ضی کی طرح جغرافیا ئی ،تہذ یبی اور فکر ی انتشا ر جس انداز میں پھیلا یا گیا ہے وہ وہی ہے جو انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میںسلطنت عثما نیہ کے سا تھ اس وقت برطانیہ اور اس کے اتحا دی قو تو ں نے کھیلا تھا۔روس اور امر یکاکے مفا دات خواہ مشترک نہ ہو ں مگر ان کا کردار مسلما نو ں کے ساتھ معا ندانہ رویے کا حامل دکھا ئی دیتا ہے۔شا م ،عراق اور یمن میں جا ری خانہ جنگی کے نتا ئج کیا بر آمد ہو تے ہیں اس کا فیصلہ ہو نا ابھی با قی ہے مگر جا ر حا نہ قو تو ں کی حکمت عملی اگر اسی طر ح مسلم ممالک میں جا ری رہیں تو مسلما ن حکمر انو ں کے کردار پر بحث کی گنجا ئش مو جو دہورہے گی کہ وہ مسلسل نا کا می سے کیو ں دوچا ر ہیں۔
ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ تر کی کی سیا سی حکمت عملی میں اتحا داسلا م کو فر وغ دینے کی کو ششیں بار ہا دکھا ئی دیتی ہیں۔دنیائے اسلا م میں سیا سی بر تری جس طرح تر کو ں کے حصے میں آئی ہے ویسی کسی دوسری قوم کو نصیب نہیں ہوسکی۔ترکوں میں انجمن نو جو انان کی تحریک نے ترکو ں کو عہد اسلا می کی تا ریخ سے جس طر ح قطع تعلق کر نے پر مجبو رکیا ہے اس کی داستان نہا یت طو یل ہے مگر اس کا خمیا زہ بھی تر کو ں کو کئی نسلوں تک بھگتنا پڑے گا۔
جنو بی ایشیا کے مسلما ن تر کو ں کی تا ریخ اور تہذیب سے ربط رکھتے ہیں اس لیے وہا ں کی سیا سی زندگی میں ہو نے والی تبد یلی کے اثرات یہا ں پر بھی پڑتے ہیں۔مذ ہبی طبقہ یہ چا ہتا ہے کہ تر ک احیا ئے اسلا م کی جد وجہد میں دوبا رہ وہی کر دار ادا کر یںجو ان کے آبا کر تے رہے ہیںجب کہ جدید یت کے حا می ہر اس وحی کو جو انقر ہ سے نا زل ہو تی ہے مسلما نو ں کے سامنے اس طر ح پیش کرتے تھے گو یا قرآن منسو خ ہو چکا ہے اور رسا لت ختم ہو گئی ہے۔اب ہد ایت ہے تو اتا تر ک کے اسوہ میں ہے۲۷۔
یو رپی اور امر یکی سیا سی تنا ظر میں تر کی اور دیگر مسلما ن مما لک کا جا ئز ہ لیں تو ہمیں یہ دکھا ئی دے گا کہ جس عالمی رواداری کا مظا ہر ہ مسلما نو ں نے کیا ہے وہ مغربی اقوام کی دہشت و بر بریت کے سا منے ایک مثال ہے بہ شر طے کہ ہم انصاف سے تا ریخ اور مو جو دہ تنا ظر کا مطالعہ کریں۔مو جو دہ عہد میں مسلما ن ملکو ں میں دیگر اقوام کو جس طر ح مذ ہبی آزادی حا صل ہے وہ اکیسویں صدی کے یو رپ اور امر یکا میں مسلمانو ں کو میسر نہیں ہے ۔اس لیے فرانس اور جر منی میں حجا ب پر پابند ی کے حوالے سے جو ردعمل ظا ہر ہو ا ہے وہ ان کی حکومتو ں کے ذہنی رویے کی عکا س ہے۔
جد ید تر کی نے یو رپی قو تو ں کا ساتھ اپنی خوا ہشات سے بڑ ھ کر دیا ہے مگر وہ تا ریخ کے ان مسا ئل کو کبھی بھی حل نہیں کر سکتا جو سلطنت عثمانیہ اور اہل یو رپ کے ساتھ کئی صدیو ں سے جڑے ہو ئے ہیں۔اس کی حا لیہ مثا ل The Economist London۲۸ ؍جنو ری ۲۰۱۲ء کی ایک رپو رٹ میں دیکھی جا سکتی ہے۔جنوری ۲۰۱۲ ء میں فرا نس کی سینیٹ میں ایک بل پیش کیا گیا ،جس کے تحت ۱۹۱۵ء میں آ رمینیا میں تر کو ں کے قتل عا م کو جھٹلا نا جر م قرا ر پا ئے گا۔اس وقت کے ترک وزیر اعظم رجب طیب اردو گا ن نے فرانسیسی حکو مت کو متنبہ کیا ہے کہ اس بل کو منظو رکر کے قا نو ن بنا نے کے خطر نا ک نتا ئج بر آمد ہو ں گے۲۸۔
یو رپ نے تر کی کو ان تا ریخی حقیقتو ں سے فراموش کر کے نہیں دیکھا اور نہ ہی آ ئندہ اس کے امکا نا ت ہیں۔روس کی شام میں بڑ ھتی ہو ئی مدا خلت نے تر کی کی خا رجہ پا لیسی کو مشکلا ت کا شکا ر کر دیا ہے۔اس سنبھلتی ہو ئی قوت کو مشرق وسطی میں جا ری خا نہ جنگی نے کئی محا ذ پر بیک وقت مصروف کر دیا ہے جس سے مو جو دہ تر کی عہد ہ بر آ ہو تا ہے یا نہیں یہ فیصلہ ہو نا با قی ہے۔روس سے تر کی کی جا ری مخا صمت تین صدیو ں پرانی ہے یہ دو نو ں ہمیشہ سے روایتی حر یف رہے ہیں۔
سید مو دو دی نے تر کی اور اسلا می ملکو ں میں پروان چڑ ھتی ہو ئی نیشنل ازم کی تحریکو ں پر تنقید کی ہے۔انھو ں نے اس نظر یے کو اسلامی فکر کے عل الر غم قراردیااور اتحا د امت کی تر ویج و اشاعت پر خصو صی تو جہ دینے کے لیے کہا۔ان کی فکر میں اتحا د امت ایک ایسی قوت بن کر سا منے آ تی ہے جو زندگی کے ہر دائر ہ کا رمیں کسی مسئلے کو علا قائی اور جغرافیا ئی بنیا دوں پر نہیں دیکھتی،بلکہ عالمی اسلا می برادری کے ایک شریک کا ر کے طور پر ان مسائل کا حل چا ہتی ہے جو دنیا میں پھیلے ہو ئے مختلف خطوں میں آ با د مسلما نو ں کولا حق ہیں انھو ں نے مغرب کی جارح قوتو ں کا محاکمہ اس انداز میں کیا ہیـ وہ لکھتے ہیں کہ:
اس وقت مغرب کی جا بر قوتو ں کی وجہ سے اسلا می مما لک میں کش مکش بر پا ہے۔ہما ری ہمدردیا ں ان ملکو ں کے ساتھ ہے جو اپنے جا ئز حقو ق کی جد و جہد کر رہے ہیں ان کے ساتھ ہمد ردی اس بنیا د پر نہیں کہ وہ مسلمان ہیں بلکہ اس بنیا د پر بھی ہے کہ وہ مظلو م ہیں۔ حق ان کے ساتھ ہے اور ان کاحریف سراسر نا حق ہے۲۹۔
نیشنل از م کی بنیا د پر استوار ہو نے کی وجہ سے ہم اپنے بھا ئی مسلما نو ں کی جا ئز مد د کر نے کے بھی قا بل نہیں رہتے۔اسی لیے سید مودودی نے اس نظر یے کو اسلا م سے متصا دم قراردیتے ہو ئے اس کے حا ملین کے با رے میں کہا کہ :اس نظریے کے پیروکا ر خدا اور مذ ہب کو بھی قو می بنا دیتے ہیں۔یہ نظریہ انسا نو ں میں ایسا تعصب پیدا کر دیتا ہے جسے جا ہلی عصبیت کے سوا کچھ قرارنہیں دیا جا سکتا۳۰۔انھو ں نے لکھا کہ:
نیشنل از م اختیا ر کر کے اس کے فطر ی تقا ضو ں سے کو ن بچ سکتا ہے؟غو ر کیجیے ،آ خر وہ کیا چیز ہے جو قوم پر ستا نہ طر ز فکر اختیا ر کر تے ہی ایک مصری نیشنلسٹ کا رخ خود بہ خود عہد فراعنہ کی طر ف پھیر دیتی ہے؟جو ایرانی کو شاہ نا مے کی افسا نو ی شخصیتوں کا گر ویدہ بنا دیتی ہے؟جو ہندوستا ن کو پرا چین سمے کی طر ف کھینچ کر لے جا تی ہے اور گنگ و جمن کی تقدیس کے ترانے اس کی زبا ن پر لا تی ہے؟ جو تر ک کو مجبو ر کر تی ہے کہ اپنی زبا ن ،اپنے ادب اور اپنی تمد نی زندگی کے ایک ایک شعبے سے عر بی اثرات کو خا رج کر کے اور ہر معا ملے میں عہد جا ہلیت کی تر کی روایا ت کی طر ف رجو ع کرے؟۳۱۔
تر کو ں نے جب اتحا د اسلا م کے نظر یے سے روگر دانی کی تو ان میں ایسی دل چسپیا ں پروان چڑ ھیں جو تہذیبی و تمد نی اعتبا ر سے محدود دائرے میں تھیں اور اس دائر ے میں خو دکو مقید کر کے اس قوم نے عالمی اسلا می اقوام کی سیا دت سے اپنا ہاتھ اٹھا لیا ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تر ک کئی معاملا ت میں تنہا ہو گئے۔سید مو دو دی نے جد ید تر کی کے با نی گو ک الپ ضیا کے خیا لا ت پر تبصرہ کر تے ہو ئے کہا کہ نیشنل ازم آدمی کے دما غ کو اسلا م سے جا ہلیت کی طر ف پھیر دیتا ہے۳۲کیو ں کہ گوک الپ ضیا نے کہا تھا کہ اسلا م ہما رے منا سب حا ل نہیں ہو سکتا اگر ہم اپنے عہد جا ہلیت کی طرف رجعت نہ کر یں تو پھر ہمیں ایک مذ ہبی اصلاح کی ضرورت ہے جو ہما ری طبعیت سے منا سبت رکھتی ہو۔
۲۱ ؍اگست ۱۹۶۹ء میں جب مسجد اقصٰی کو شہید کر دیا گیا تو لا ہو ر میں مولانا مو دودی نے ۲۴؍ اگست ۱۹۶۹ء میں تقر یر کرتے ہو ئے تر کو ں کے کردار پر نیشنل ازم کے گہر ے اثرات کا تجزیہ پیش کیا ہے ۔انھو ں نے لکھا ہے کہ مغربی سیاست کاروں نے جس میں یہو دی بھی کا م کر رہے تھے سلطنت عثما نیہ کے حصے بخر ے کر نے کا منصو بہ بنا لیا تھا‘انھو ں نے ترکو ں میں یہ تحریک اٹھا ئی کہ وہ سلطنت کی بنیا د اسلا می اخوت کے بجا ئے تر کی قوم پر ستی پر رکھیں ،حا لا ں کہ تر کو ں کا جغر افیہ اس بات کی گو اہی دیتا ہے کہ تر کی میں صرف تر ک آ با د نہیں ہیں بلکہ عر ب اور کر د بھی ہیں۔اس کے علا وہ دوسری نسلو ں کے مسلمان بھی آباد ہیں۔ایسی سلطنت کی بنیا د صرف تر کی النسل لو گو ں پر رکھنے کے صا ف معنی یہ تھے کہ تمام غیر تر ک مسلما نو ں کی ہم دردیاں اس کے سا تھ ختم ہو جا ئیں گی۳۳۔دوسر ی جا نب عر بو ں اور دیگر اقوام کو اس با ت پر ابھا را گیا کہ وہ ترکوں کی غلا می سے نجات حاصل کر لیں۳۴۔
مو جو دہ تر کی میں جا ر ی اندورونی مخا صمت کا اندازہ اس پس منظر سے لگا یا جا سکتا ہے کہ اس کے کُر د صوبے آ ج بھی کئی حو الو ں سے تر ک ریا ست کے ہم راہ نظر نہیں آتے۔مغر بی قوم پر ستی کی بنیا د پر استوار ہو نے وا لے جد ید تر کی میں بڑھتی ہوئی خو ں ریز ی کی بنیا دی وجوہات کو ان امو ر میں ساتھ تلا ش کیا جاناکوئی مشکل امر نہیں ہے۔سید مو دو دی کے ان خیالات کا اعادہ اس لیے کیا جا نا ضروری ہے کہ تر کو ں نے سب سے پہلے اپنے آپ کو اسلامی فکر کے بنیا دی تصورات سے شعوری طو ر پر علا حدہ کیا۔بیسو یں صدی میں تر کو ں کے انحطا ط کی وجہ سے مسلما نو ں کی وحدت کو نظر ی بنیا دو ں پر اسی نیشنل از م کی تحر یک نے نقصا ن پہنچا یا تھا۔اسی لیے سید مو دو دی نے اپنی فکر میں امت کی تشکیل نو کو مرکز ی اہمیت دی ہے۔
روس اور یو رپ کی دو لت عثما نیہ سے جا ری مخا صمت کا مطا لعہ مصطفی کا مل پا شا (۱۸۷۴ء ۔۱۹۰۸ء )کی کتا ب مسئلہ شر قیہ ۳۵میں موجودہے۔جس کا اردو تر جمہ سید ابو الا علی مودودی نے کیا تھا۔اس ترجمے سے سید مو دو دی کی فکری جہت کو سمجھنے میں مد د ملتی ہے۔عالم اسلا م میںجا ری مشرق و مغرب کی کش مکش میں تاریخی موڑ سلطنت عثما نیہ کا زوال تھا اور اس سقو ط نے عالم اسلا م کی تا ریخ سے خلا فت کے تصور کو ناپید کر دیا اور مسلما ن مر کزی حیثیت میں پھر کبھی مجتمع نہیں ہوسکے۔مصطفی کا مل پا شا کی اس کتا ب کے تر جمے کی غا یت یہی تھی کہ مسلمانو ں کو مغربی حکمت عملی کے تضا دات سے آگا ہ کیا جا ئے ۔اس کتا ب کے مطا لعے سے یہ با ت بھی سا منے آ تی ہے کہ انیسو یں اور بیسو یں صدی میں مسلما ن عالمی قوتو ں کی چیرہ دستیو ں کا جس انداز میں شکا رہورہے تھے اس کے تسلسل کو سمجھنے کے لیے تر کو ں کی تا ریخ اور یو رپ پر اس کی فتح کا جا ئز ہ ضرور لینا اشد ضروری ہے۔
حوا لے وحوا شی:
۱۔ عبد البا ری،سید ،ڈاکٹر،۲۰۰۹ء،انو کھے لو گ نرا لی با تیں،ایجو کیشنل پبلشنگ ہا ئو س،دہلی،ص۳۳؛خلافت عثمانیہ کے تعلق سے مولانا مودودی کے یہاں مضامین کا تسلسل دیکنے کو ملتا ہے ۔مولانا مودودی جب رسا لہ الجمعیۃ(۱۹۲۵ء۔۱۹۲۸ء)کے مدیر تھے تو اس وقت انھوں نے عالم اسلام کے مو ضوعات پر کئی اہم تا ریخی و تجزیا تی اداریے لکھے۔تر کوں کے ساتھ ہو نے والی پے در پے زیادتی کو انھوں نے نہ صرف محسوس کیا بلکہ مسلمانوں کی اس مرکزیت کے انہدامی عمل کو دیکھ کر مولانا مودودی کا فی مضمحل ہو گئے۔
۲۔ مسئلہ آ رمینیا کی تفصیلا ت مصطفی کا مل پا شاکی کتا ب مسئلہ شر قیہ میں دیکھی جا سکتی ہے اس کا تر جمہ سید مو دو دی نے کیا تھا ۔یہ مسئلہ عثما نو ی تا ریخ میں کئی موا قع پر سر اٹھا تا رہا تھا۔۱۸۹۳ء میں انگو رہ کی عدا لت نے ارمن با غیو ں پر مقد مہ چلا یا اور ان پر بغا وت ثا بت ہوگئی۔ ان با غیو ں کے سر کر دہ لو گو ں نے ار منو ں کو عثما نو ی خلا فت کے خلا ف ابھا را اور خو د تر کو ں کا بھیس بد ل کر ارمنو ں کو قتل کر تے اور ترکوں کو بد نا م کیا جا تا ۔یہ مسئلہ دوسری مر تبہ۱۹۱۵ء میں اٹھا جب عثما نی حکومت نے مجبو رہو کر جنگی محا ذو ں کے قریبی علا قو ں میں مو جو د آرمینیا ئی با شندو ں کو دو لت عثما نیہ کے مختلف علا قو ں میں بسا یا تھا۔یہ نقل مکا نی صرف جنگ کے علاقے میں مو جو د آ رمینا ئی با شندوں کے لیے تھا۔ورنہ دوسرے علا قو ں میں مو جو د آرمینیا ئی اس سے مستثنی تھے۔
۳۔ یہ کتا ب ضیا محمد شفیق نے ۱۹۱۹ء میں تر کی کا نگر یس لو زین سے شا ئع کرا ئی تھی۔اس کتا ب میں انگر یز اور فرنچ افسرا ن کی رپو ر ٹیں یو نا نی مظا لم کی تا ریخی شہادت فرا ہم کر تی ہیں۔اس میں مئی سے جولا ئی ۱۹۱۹ء تک کے حا لا ت مو جو د ہیں۔
۴۔ خالد، سلیم منصور، رانا، جمیل احمد، ۱۹۹۸ء، تذ کرہ سید مو دودی،جلد سوم،ادارہ معارف اسلا می،لا ہو ر،ص ۷۶۱
۵۔ عبد البا ری،ص ۳۳
۶۔ اختر،سفیر،ڈاکٹر،۲۰۰۴ء ،سید ابو الا علی مو دودی اور ان کا سر ما یہ قلم بھو لی بسری تحریر وں کی روشنی میں،دارالمعارف،ص۸۵
۷۔ مو دودی،ابو الا علی،سید،دیبا چہ ۱۹۲۲ء ،تر کی میں عیسا ئیو ں کی حا لت ،دارالا شا عت سیا سیا ت مشر قیہ،دہلی،ص۱
۸۔ ایضا ً،ص۲۹۵؛مولانامودودی کی مولانا محمد علی جوہر سے محبت کا اندازہ ان کے ایک چھو ٹے سے مضمون جو رسالہ الجمعیۃ میںمولانا محمد علی کی صحت کے عنوان سے شائع ہوا جس میں مولانا مودودی نے اپنی محبت اور دیرینہ وابستگی کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:’’مولانا شوکت علی نے ان حالات کو دیکھتے ہو ئے اپنے عزیز بھائی اور اسلامی ہند کے مایہ ناز فرزند کی زندگی کے لیے جن خطرات کا اظہار کیا ہے وہ ہمارے لیے بے حد رنج و الم کا باعث ہیں۔اگر مسلمانوں نے خصو صاً اور تمام باشندگان ِہند نے عموماً اس طرف جلد توجہ کر کے مولانا موصوف کی مشکلات کو کم نہ کیا تو ہمیں اندیشہ ہے کہ وہ ایک نایاب گو ہر کو کھو دیں گے۔تفصیلات کے لیے دیکھیے:مودودی،سیدابوالاعلیٰ،ستمبر ۲۰۱۶ء،صدائے رستاخیز،مرتبہ:خلیل احمد حامدی،ادارہ معارف اسلامی لاہور،ص۲۷۹
۹۔ ایضاً،ص۳۰۱
۱۰۔ مودو دی،۱۹۲۲ء،ص۱
۱۱۔ ایضاً،ص۲
۱۲۔ ایضاً،ص۳
۱۳۔ ایضا ً
۱۴۔ ایضاً،ص۶
۱۵۔ ایضاً،ص۷
۱۶۔ ایضاً؛مولانا مو دو دی نے اس سلسلے میں ایک اور مثا ل قائم کی کہ ۲۶؍ اپر یل ۱۸۸۱ء کسٹر بر یڈ لا صرف اس وجہ سے بر طا نو ی پا رلیمنٹ سے خارج کر دیے گئے کہ وہ مذ ہباًدہر یہ تھے۔
۱۷۔اقلیتو ں کو بہت سی مرا عات حا صل تھیں مثلا ًچرچ کی تما م زمینیں ما ل گز اری سے متثنی تھیں عیسا ئی پا دری اپنی اقوام سے خود ٹیکس وصول کر تے تھے اور جو شخص اس کو ادا نہیں کرتا تھا اس کا نکا ح تک نہیں پڑ ھا یا جا تا تھا۔عیسا ئی اقوام فو جی خد ما ت سے بھی مستثنی قرار دے دی گئی تھیں حالا ں کہ جنگ بلقا ن میں تر کی مو ت و حیا ت کی شد ید کش مکش میں مبتلا تھا مگر پھر بھی عیسا ئیو ں پر اس جنگ کا با ر نہیں ڈالا گیا۔جب کہ ۱۹۰۸ ء میں عثمانوی خلا فت دستو ری حکو مت میں تبد یل ہو گئی تھی۔
۱۸۔ البیراک،صادق،۲۰۱۲ء،Religious Struggle in Turkey،انگریزی تر جمہ:محمد خا ن کیا نی،انقلا ب،استنبو ل ،ص۱۵،۱۶
۱۹۔ ایضا ً،ص۱۶
۲۰۔ یکم اکتو بر ۲۰۱۲ء، معا رف فیچر،جلد نمبر ۵ شما رہ ۱۹،پند رہ روزہ،کراچی،ص۴
۲۱۔ مودودی ،۱۹۲۲ء،ص ۲۸
۲۲۔ مودو دی ،۱۹۲۱ء ،سمر نا میں یو نا نی مظا لم ،دار الا شا عت مشر قیہ دہلی،ص۲۳،۲۴
۲۳۔ ایضا ً؛اس کتا ب میں انجمن دفا ع اسلا م کی جانب سے نو ٹ بھی مو جو د ہے ۔انجمن دفا ع اسلا م لند ن نے دارلعوام بر طا نیہ میں Aurbrey Herbertاور کمانڈرKenworthyکے ذریعے تین سوالا ت پیش کیے تھے۔ان کا مجمل جواب Harmsworthنے یہ دیا کہ سرکا ری طورپر ان مظا لم کی جن کا ذکر کیا گیا ہے تحقیق کی جا ئے گی اور اگر وہ ثا بت ہو گئے تو اس کے متعلق ضرور کا رروائی ہو گی۔اس سر کا ری اعلا ن اور شیخ الا سلا م تر کی کے زبر دست احتجا ج کی وجہ سے ایک اتحا دی کمیشن سمرنا بھیجا گیامگر اس سے قبل اس کے کہ وہ اپنا کا م شروع کرتا جنر ل paroskevopoulsسمر نا سے یو نا ن بلا لیا گیا اور بعد میں کمیشن نے جن جن یو نا نی افسرو ں کو ملز م قراردیا وہ اپنے عہد وں پر ماموررہے۔انجمن دفا ع اسلا م سے ڈکسن جا نسن،ما ر ما ڈیو ک پکتھا ل،یعقوب حسن اصفہا نی،مشیر حسین قدوائی وابستہ تھے۔ڈکسن جا نسن نے تر کو ں کی امداد میں بڑ ھ چڑھ کر حصہ لیا ۔مز ید تفصیلا ت کے لیے دیکھیے؛ایم ۔اے شریف،۲۰۱۱ء،Brave Hearts Pickthal and Philby two English Muslims in a changing World،اسلا مک بک ٹر سٹ، کو لا لمپو ر ،ص۲۸،۲۹
۲۴۔ مودودی،سید ابو الا علی،سید،جون ۱۹۳۹ء،تنقیحات،مکتبہ جما عت اسلامی،دار الاسلام،پٹھا نکوٹ،پنجاب،ص۶۸؛انھوں نے اپنے ایک مضمون تر کی میں افراط و تفریط کا ہنگامہمیں لکھتے ہیں کہ :’’ترکی کی عام آبادی کے متعلق دنیا جانتی ہے کہ وہ نہایت سخت مذہبی ہیں۔خصوصاً مشرقی اناطولیہ کے باشندے تو اپنی مذہبیت کے اعتبار سے دنیا کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ راسخ العقیدہ ہیں۔۔۔ایسی آبادی میں بیٹھ کر محض فوجی قوت کے بھروسے اس قسم کے انتہاپسندانہ اصلاحی خیالات کو عملی جامہ پہنانا جو مذہب اور مذہبیت سے بُعد تام رکھتے ہیں کسی عقل مند اور صاحبِ تد بر کا کام نہیں ہوسکتا۔اس کا طبعی نتیجہ یہ ہے کہ عوام انتشار میں پڑجائیںتفصیلات کے لیے دیکھیے :سیدابوالاعلیٰ،ستمبر ۲۰۱۶ء،صدائے رستاخیز،مرتبہ:خلیل احمد حامدی،ادارہ معارف اسلامی لاہور،ص۶۴۰
۲۵۔ اردوگا ن،طیب،اکتو بر ۲۰۱۱ء،اسلا م خو فی:انسا نیت کے خلا ف جرم ،تر جمہ:محمد دین جو ہر،مشمو لہ :سہ ما ہی ’جی‘،لاہور،ص۸۱
۲۶۔ ایضا ً
۲۷۔ مودودی،سید ابو الا علی،سید،جون ۱۹۳۹ء،ص۷۱
۲۸۔ ۲۸؍ جنوری ۲۰۱۲ء،The Economist London،اردو تر جمہ:’’معارف فیچر‘‘،کرا چی ،جلد نمبر :۵ شما رہ نمبر ۴،پندرہ روزہ،۱۶ فروری ۲۰۱۲ء ،کراچی
۲۹۔ مو دو دی،۱۰ ؍نو مبر ۱۹۵۱ء،ہما رے دا خلی و خا ر جی مسا ئل،شعبہ نشرو اشا عت جما عت اسلا می ،حلقہ سندھ،کراچی،ص۸
۳۰۔ مودودی،۱۹۴۲ء،مسئلہ قو میت،مکتبہ جما عت اسلامی،دار الاسلام،پٹھا نکوٹ،پنجاب،ص۹۰
۳۱۔ ایضاً،ص۹۱
۳۲۔ ایضاً،ص۹۲؛مولانا مودودی نے الجمعیۃ۱۲۴۳ھ کے ادریے میں ترکیکے عنوان سے ترکوں کی مغرب زدگی پر سخت تنقید کی اور کہا کہ:’’ترکی جدید کی تنظیم میں انتہا پسندی کے عنا صر نے غلبہ حاصل کر لیا ہے اور نئے مدبر ین سلطنت سے ترقی و تجدید کے جوش میں بعض ایسی حرکات سرزد ہو گئیں ہیں جن پر دنیاے اسلام میں ایک عام رنج و افسوس کی لہر دوڑ گئی ہے۔تفصیلا ت کے لیے دیکھیے:مودودی،سیدابوالاعلیٰ،ستمبر ۲۰۱۶ء،صدائے رستاخیز،مرتبہ:خلیل احمد حامدی،ادارہ معارف اسلامی لاہور،ص۴۰
۳۳۔ مو دو دی ،اگست ۲۰۰۳ء ،القدس پس منظر اور صیہو نی عزائم،ادارہ معارف اسلا می ،کراچی،ص۱۶
۳۴۔ ایضاً
۳۵۔ سید مو دو دی نے ۱۹۲۴ء میں نگا ر میں جو نیا ز فتح پو ری نکا لتے تھے اس میں مصطفی کا مل پا شا سر زمین فرا عنہ کا بے مثل فر زند کے عنوان سے مصطفی کا مل پا شا کی زندگی پر ایک تفصیلی مضمو ن لکھا ۔اس وقت ان کی عمر ۲۰ سے ۲۲ سا ل ہو گی۔انھو ں نے اس مضمو ن کے ذریعے ہندوستا نی مسلما نو ں کو اس کی شخصیت سے اس لیے متعا رف کروا یا تا کہ ہندوستا نی نو جو ان بھی انگر یز وں سے آزادی حا صل کر نے کے لیے اس کا طریقہ اختیا ر کر یں۔اس تر جمے کی کہا نی بھی دل چسپ ہے ۔یہ ترجمہ پہلی با ر نگار میں شا ئع ہوا تو اس میں نیا ز فتح پو ری نے بے با کی کا مظا ہر ہ کر تے ہوئے بطور مترجم اپنا نا م لکھا۔۱۷ ؍فروری ۱۹۷۱ء میں انیس جیلا نی کے نا م خط میں سید مو دودی لکھتے ہیں کہ:’’مصطفی کا مل پا شاکی کتا ب المسلہ الشر قیہ کا تر جمہ میں نے کیا تھا اور نیا ز فتح پو ری کو اشا عت کے لیے دیا تھا انھو ں نے اس کو اپنے نام سے چھا پ دیا اور تر جمے کا معا وضہ تک نہ دیا‘‘۔اسی طر ح نیا ز فتح پو ری نے مولا نا کے ایک مضمو ن جو انھوں نے ان معا شی نقصا نا ت پر لکھے جو انگریز و ں نے ہندوستا ن کو پہنچا ئے تھے وہ بھی انھو ں نے اپنے نام سے شائع کر دیا تھا جس پر سید مودودی نے سخت احتجا ج بھی کیا تب با قی کی دو قسطیں سید مو دو دی کے نا م سے شائع ہوئیں۔مز ید تفصیلا ت کے لیے دیکھیے؛مصطفی کا مل پا شا،ستمبر ۱۹۹۴ء،المسلۃ الشر قیہ،مترجم :سید ابو الا علی مودودی،ادارہ معارف اسلامی ،لا ہو ر
٭…٭