جدید تعلیم کے ساتھ دینیات کا جوڑ …کیا ہمارے بچوں کو خدا سے قریب کرسکتا ہے؟

ہمارے ہاں یہ تصور عام ہے کہ اسلامیات کا سبق پڑھا دینے سے ہم اپنی نئی نسل کو اسلام سے روشناس کرارہے ہیں۔اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے مولانا مودودیؒ اپنی کتاب ’’تعلیمات‘‘ میں رقمطراز ہیں:
انگریزی حکومت کے قیام کے بعد جب یہ نظام تعلیم ملک میں رائج ہوا اور ترقی وخوش حالی کے تمام دروازے ان لوگوں کے لیے بند کردیے گئے جو یہ تعلیم حاصل نہ کریں تو ہما ری قوم کے صاحب فکر وتدبیر لوگوں کو یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں یہ نظام تعلیم ہماری نئی نسلوں کو بالکل ہی نا مسلمان بنا کر نہ رکھ دے۔ اس لیے اُنھوں نے چاہا کہ اسی نظام کے تحت خود اپنے اہتمام میں قومی مدد سے، کالج اور یونی ورسٹیاں قائم کریں جن میں طلبہ کو پڑھایا تو وہی کچھ جائے جس کے لیے انگریز اُنھیں تیار کرنا چاہتا ہے، مگر ساتھ ساتھ دینیات کی تعلیم کا جوڑ بھی لگادیا جائے تاکہ وہ بالکل کافر ہی ہوکر نہ رہ جائیں۔
یہ ایک اصلاح کی تجویز تھی اور خیال یہ کیا گیا تھا کہ اس طریقے سے ہم ان مسلمان نوجوانوں کو جو ہمارے اداروں میں آکر پڑھیں گے، ان بُرے اثرات سے کسی نہ کسی حد تک بچا سکیں گے جو انگریزی تعلیم سے اُن میں پہنچنے کی توقع تھی لیکن تجزیے نے ثابت کردیا اور عقل سے بھی آپ سوچیں تو یہی آپ کی سمجھ میں آئے گا کہ اس طرح کے قلم لگانے سے حقیقت میں کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ یہ پیوندی انسان تیار کرنے کی ایک عجیب کوشش تھی جو قطعاً ناکام ہوئی اور قانون فطرت کے مطابق اسے ناکام ہونا ہی چاہیے تھا۔
تعلیم کا تصور کیا ہے۔جدید تعلیمی نظام سے متعلق اسلام کا نقطہ نظر کے بارے میں جاننے کے لیے مولانا مودودیؒ کی معروف کتاب ”تعلیمات“ پڑھیے۔ کتاب پڑھنے کے لیے لفظ تعلیمات پر کلک کیجیے
ایک طرف آپ ایک طالب علم کو تمام دینوی علوم اس طریقے سے پڑھاتے ہیں کہ وہ محسوس کرتا ہے کہ سارا کار خانہ بے خداہے اور خدا کے اندر کہیں اسے یہ محسوس نہیں ہوتا کہ اس کارخانۂ دنیا میں یا اس کارخانۂ زندگی میں کہیں خدا کا کوئی مقام ہے، کہیں رسول ؐ کا کوئی مقام ہے، کہیں وحی کی کوئی حاجت ہے۔ سارے کے سارے نظامِ زندگی کووہ اسی نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے۔اس کے بعد یکایک آپ دینیات کی کلاس میں لے جا کر اسے بتاتے ہیں کہ خدا بھی ہے اور رسول بھی ہے اور وحی بھی آتی ہے اور کتابیں بھی آتی ہیں ۔آپ خود غور کیجیے کہ دنیا کے مجموعی تصّور سے الگ اور بالکل بے تعلق کر کے یہ اطلاع جو آپ اسے دے رہے ہیں اسے وہ اس مجموعے میں آخر کہاں نصب کرے گا ؟ کس طرح آپ ہر طالب علم سے یہ توقع کرسکتے ہیں کہ کائنات اور زندگی کے بے خدا تصّور کے ساتھ دینیات کی یہ پوٹلی جو آپ الگ سے اس کے ہاتھ میں تھمادیتے ہیں، اسے کھول کر روز کے روز دوسرے اجزائے علم کے ساتھ ترکیب دیتارہے گا اور خود بخود اپنے ذہن میں ایک دوسرا باخدا تصور مرتب کرتا رہے گا۔
پھراس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے قومی خرچ پر جو درس گاہیں قائم کیں ان میں بھی ہم نے وہی سارا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جو سرکاری درس گاہوں میں تھا۔ ہم نے کوشش کی کہ وہ انگریزی کلچر ہی کے رنگ میں رنگے جائیں۔ ہم نے کھیلوں میں اور نشست و بر خاست میں اور رہنے سہنے میں اور مسائل پر بحثوں میں، غرض ہر چیز میں یہی کوشش کی کہ ہماری یہ قومی درس گاہیں کسی طرح بھی سرکاری درس گاہوں سے مختلف نہ ہوں۔ بالکل اسی معیار کے آدمی یہاں سے نکلیں جیسے سرکاری درس سے نکلتے ہیں اور کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ یہ انگریزی معیار کے لحاظ سے سرکاری درس گاہوں سے نکلے ہوئے لوگوں سے کسی طرح بھی کم تر ہیں۔ جب یہ مقصد ہمارے سامنے تھا اور اسی کی خاطر ہم نے پورا فرنگیت کا ماحول طاری کرنے کی کوشش کی تو ماحول کے اندر اسلام کی وہ ذراسی قلم جونے لگائی وہ آخر اپنا کیا رنگ دکھا سکتی تھی۔ تعلیمی حیثیت سے وہ نہایت کم زور تھی ۔ دوسرے کسی نصابِ تعلیم سے اس کا کوئی جوڑ نہ تھا۔ جتنے دلائل ایسے ہوسکتے تھے جو خداپرستی کے لیے کار آمد ہوتے وہ سارے کے سارے دلائل ہم نے ناخدا پرستی اور ناخدا شناسی کے لیے فراہم کرکے دیے۔ اس پر مزید ہم نے یہ کیا کہ اپنے قومی کالجوں میں بھی سرکاری کالجوں کی طرح زندگی کا پورا ماحول ذہنی تربیت کا پورا نظام ایسا رکھا جو اسلام کے اس کم زور سے پیوند کے بجاے فرنگیت اور اِلحاد کے لیے ہی سازگار تھا۔ اس میں کوئی چیز بھی ایسی نہ تھی جو اس پیوند کو غذا دینے والی ہو، بلکہ ہرچیز عین اس کی فطرت کے خلاف تھی۔ یہ سب کچھ کرکے ہم کسی معجزے کی توقع رکھتے تھے کہ دینیات کی اس تعلیم کی اس تعلیم سے حقیقت میں کوئی دینی جذبہ پیدا ہوگا، کوئی دینی رجحان نشوونما پائے گا، حالانکہ قانونِ فطرت کے مطابق اس کا لازمی نتیجہ یہ تھا اور یہی عملاً برآمد ہوا کہ جن طلبہ کو اس طریقے سے دینیات کی کالجوں سے زیادہ بدتر ہوگئی۔ یہ واقعہ ہے کہ ہمارے کالجوں میں بالعموم دینیات کا گھنٹہ تفریح اور مذاق کا گھنٹہ رہا ہے اور اس نے دلوں میں ایمان پیدا کرنے کے بجاے رہے سہے ایمان کابھی خاتمہ کردینے کی خدمت انجام دی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ہم خود اپنی اولاد کے سامنے اپنے دین کو تمام دوسرے مضامین سے حقیر تر نا پیش کریں گے تو اس کی کم از کم سزا جو قدرت کی طرف سے ہمیں ملنی چاہیے وہ یہی ہے کہ ہمارے بچے ہماری آنکھوں کے سامنے ملحد اور زندیق بن کر اُٹھیں اور اپنے ان بزرگوں کو احمق سمجھیں جو خدا،رسول اور آخرت کو مانے۔
اسلام میں عورتوں کی تعلیم کا تصور کیا ہے۔جدید تعلیمی نظام سے متعلق اسلام کا نقطہ نظر کے بارے میں جاننے کے لیے مولانا مودودیؒ کی معروف کتاب ”تعلیمات“ پڑھیے۔
”تعلیمات“ پڑھیے۔ کتاب پڑھنے کے لیے لفظ تعلیمات پر کلک کیجیے

حوالہ: ابوالا علیٰ، مودودی،سدt، تجدید واحاhی دین، باب اول ، اسلامک پبلی کشنز ، لاہور، ص:12۔