آبائے مودودیؒ:
سید قطب الدین مودود چشتی اور ان کے والد خواجہ ابو یوسف چشتی ( ہرات افغانستان) کے مقام چشت میں پیداہوئے۔ چشت ہرات سے ۱۰۶میل کے فاصلہ پر ایک سرسبز وادی ہے۔ آپ کا نسب تیرا واسطوں سے امام حسین سے جا ملتاہے۔ آپ نے قرآن اور ظاہری علوم کی تعلیم حاصل کی اور ’’منہاج العارفین ‘ ‘ اور ’’خلاصۃ الشریعہ‘‘جیسی بلند پایہ تصنیف کی۔ آپ چشت ،ہرا ت ، افغانستان میں ہی دفن ہیں۔
خاندان مودودیہ کی وہ شاخ جس سے مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی ؒ کاتعلق ہے وہ نویں صدی ہجری ؍پندرھویں عیسوی صدی میں افغانستان سے بلوچستان (پشین ) داخل ہوئے اور پھر کئی پشتوں تک قیام کے بعد ہندوستان داخل ہوئے۔ اس شاخ سے جو ہندوستان داخل ہوئے ان کانام ’’شاہ ابوالاعلیٰ جعفر مودودی‘‘ (۷۸۲۔۹۱۶ھ) تھا۔ سیدابوالاعلیٰ مودودی کے نام میں ’’ابوالاعلیٰ ‘‘انہی کے نام سے منسوب ہے۔ ابوالاعلیٰ جعفر،کرنال کے قریب قصبہ براس میں مقیم ہوئے اور سکندر لودھی کے دور حکومت میں ہندوستان میں کئی جہادی معرکوں میں شریک ہوتے رہے۔ وہاں سے یہ خاندان میرٹھ کچھ عرصہ مقیم رہنے کے بعد شاہ عالم کے زمانے (اٹھارہویں صدی عیسوی ) میں دہلی آگیا۔
مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے والد ’’سید احمد حسن ‘‘ (۱۹۲۰ء۔ ۱۸۵۵ء) دہلی میں پیداہوئے۔ علی گڑھ میں کچھ تعلیم حاصل کی پھر الہ آباد سے وکالت کاامتحان پاس کیا اور اورنگ آباد ،حیدرآباد دکن جا کر وکالت شروع کردی۔ سید احمد حسن ’’سر سید احمدخان ‘‘ کے بھانجے تھے۔ مولانا مودودیؒ کی والدہ ’’محترمہ رقیہ بیگم ‘‘ کاتعلق دہلی سے تھا۔ سید احمدحسن کے چار بیٹے ابوالقاسم،ابو محمد، ابوالخیر، ابوالاعلیٰ تھے۔
ابتدائی زندگی (۱۹۰۳ء تا ۱۹۱۸ء):
سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ ۳؍رجب ۱۳۲۱ھ بمطابق ۲۵ستمبر۱۹۰۳ء بروز جمعۃ المبارک ساڑھے گیارہ بجے دن اورنگ آباد۔ حیدرآباد دکن (موجودہ مہاراشٹر ،بھارت)میں پیداہوئے۔ اپنے والد کے ہمراہ کم عمری ہی میں مسجد جانا اور علما کی محفلوں میں بیٹھنے لگے ۔ مذہبی خاندان ہونے کے سبب شروع زندگی سے ہی دینی تعلیم کا حصول جاری رہا۔ قرآن کی سورتیں یاد کیں جبکہ ۹ برس کی عمر تک ، صرف و نحو ، عربی ، فارسی ، فقہ، حدیث اور اُردو کی ابتدائی تعلیم والد محترم سے ہی حاصل کی۔
۹ برس کی عمر میں مدرسہ فوقانیہ اورنگ آباد میں (رشیدیہ) آٹھویں جماعت میں داخل ہوئے اور ۱۱ برس کی عمر میں ۱۹۱۴ء میں (مولوی ) دسویں جماعت کاامتحان پاس کیا۔ اس کے بعد مزید تعلیم کے لیے آپ کو دارالعلوم حیدرآباد بھیج دیاگیا مگر والد کی بیماری کے سبب دارالعلوم میں مزید تعلیم حاصل نہ کرسکے اور ۱۹۱۵ء میں بھوپال اپنے بڑے بھائی ابو محمدکے پاس منتقل ہوگئے۔ تاہم اس عرصہ میں مطالعہ کاگہرا شغف حاصل ہوگیا۔ دینی علوم کے ساتھ ساتھ سائنسی مضامین اور انگریزی زبان کاغیر معمولی مطالعہ کیا۔ مطالعہ کے ساتھ تحریر کا ذوق پیدا ہوا اور اسی سبب صحافتی دنیامیں داخل ہوگئے ۔۱۹۲۰ء میں والد محترم کاانتقال ہوگیا ۔ والد کے انتقال تک عملاً بھوپال میں ہی گھر والوں کے ہمراہ مقیم رہے۔
صحافتی زندگی (۱۹۱۸ء۔ ۱۹۲۸ء):
مولانا مودودی ؒ کی خود نوشت دیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ وہ مختلف زبانوں میں چار اخباروں سے منسلک رہے ۔ جن میں سہ روزہ اخبار ’’مدینہ ‘‘ بمقام بجنور (۱۹۱۸ء )،ہفت روزہ بعد ازاں روزنامہ اخبار ’’تاج ‘‘ بمقام جبلپور (۱۹۱۹ء۔ ۱۹۲۰ء) ،ہفت روزہ اخبار ’’مسلم ‘‘بمقام دہلی (۱۹۲۰ء ۔۱۹۲۳ء) اور سہ روزہ اخبار ’’الجمعیۃ ‘‘ بمقام دہلی (۱۹۲۵ء ۔۱۹۲۸ء)سے وابستہ رہے۔ ابتدائی دواخباروں میں وہ اپنے بھائی ابوالخیر کے ہمراہ رہے بعد کے دو اخبارات میں مولانا مودودیؒ مدیر کی حیثیت سے وابستہ رہے ۔ ’’الجمعیۃ ‘‘ ہی وہ اخبار ہے جو مولانا مودودی کی وسیع شہرت اور مقبولیت کاباعث بنا۔ ’’مسلم ‘‘ اور ’’الجمعیۃ‘‘ دونوں یکے بعد دیگر ’’جمعیت علماے ہند‘‘ کے ترجمان اخبار تھے ۔ لیکن مسلک سے بالاتر اسلامی جرائد تھے۔
اسی عرصے میں مولانامودودی ؒ نے تعلیمی عمل بھی جاری رکھا اور دارالعلوم فتح پور دہلی اور مدرسہ عالیہ عربیہ دہلی سے علم حدیث ، فقہ اور ادب میں اسناد حاصل کیں۔ بعدازاں ۱۹۲۸ء کے آخر میں مولانا مودودیؒ نے صحافت سے قطع تعلق کرتے ہوئے تصنیف و تالیف کے اُمور کو اپنالیا اور دہلی سے واپس حیدرآباد دکن چلے گئے۔
۱۹۱۸ء میں: ۱۵سال کی عمر میں پہلا سائنسی مضمون ’’برق یا کبریا ‘‘ ماہنامہ معارف ’’مدیر :سید سلمان ندوی) میں شائع ہوا۔
۱۹۲۴ء میں :۲۰سال کی عمر میں معاشرتی مضمون ’’اخلاقیات اجتماعیہ ‘‘ماہانہ ہمایوں (مدیر:میاں بشیر احمد) میں شائع ہوا۔
۱۹۲۵ء میں : ۲۱ سال کی عمر میں دو حصوں میں تفصیلی مضمون ’’اسلام کی قوت کااصل سرچشمہ ‘‘اخبار الجمعیۃ (مدیر:ابوالاعلیٰ مودودیؒ ) میں شائع ہوا۔
۱۹۲۷ء میں: ۲۴سال کی عمر میں ۲۳یا ۲۴قسطوں میں ’’اسلام اور قانون جنگ ‘‘ کے عنوان سے سلسلہ وار مضامین اخبار الجمعیۃ میں شائع ہوئے۔ جنہیں ۱۹۳۰ء میں ’’الجہاد فی الاسلام ‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں دارالمصنفین اعظم گڑھ (مہتمم :سید سلمان ندوی ) نے شائع کیا۔ اس عرصہ میں اخبار الجمعیۃ کے بیشتر ادارتی نوٹ لکھے اور ۶، ۵مضامین اور ۳ کتب کا اُردومیں ترجمہ بھی کیا۔
فکری زندگی (۱۹۲۸ء۔ ۱۹۴۱ء):
اس عرصے کے ابتدائی برسوں میں حیدرآباد دکن میں قیام کے دوران مولانامودودیؒ نے تاریخ پر مطالعہ اور تحقیق شروع کی۔ اس وقت آپ کی عمر ۲۵ سال تھی۔ آل سلجوق دکن کی سیاسی تاریخ ، دولت آصفیہ اور حکومت برطانیہ کے تعلقات کی تصنیف اسی عرصہ میں ہوئی جبکہ تاریخ ابن خلدون کاترجمہ ’’السفاراربعہ ‘‘کے نام سے کیا۔ اسی عرصہ میں ’’طالب ‘‘ کے تخلص کے ساتھ شعر و شاعری بھی کی۔ ۱۹۳۰ء میں ریاست حیدرآباد کے محکمہ تعلیم کے ایما پر نصابی کتب ’’دینیات ‘‘ تحریر کی۔ جسے ریاست میں ہائی اسکول کے نصاب کاحصہ بنادیاگیا۔
بعدازاں ۳۰ سال کی عمر میں ۱۹۳۳ء میں رسالہ ’’ترجمان القرآن ‘‘ کے اجرا سے براہ راست مسلمانوں سے خطاب کے طریقہ کو اختیارکرتے ہوئے اپنے خیالات وافکار کی اشاعت کاآغاز کردیا۔ ابتدا آپ نے اسلام کے افکار اقدار اور بنیادی اصول واضح کرنے کی طرف اپنی توجہ مرکوز رکھی بعد میں آپ نے عمومی مضامین کے بجاے اس وقت کے زندہ عنوانات جس میں ہندوستانی قوم کااحیا شامل تھا جیسے رہنما مضامین کا آغار کیا اور قلیل مدت میں معاشرہ میں مقام بنالیا۔ اسی عرصے میں ’’حقوق الزوجین‘‘ ، ’’سود‘‘ ، ’’پردہ‘‘، ’’مسئلہ جبر و قدر‘‘، اسلامی تہذیب اور اس کے اصول مبادی، ’’اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر‘‘، ’’تفہیمات‘‘ اور ’’ہمارے نظام تعلیم کی بنیادی خرابی‘‘ جیسی کتب تصنیف کیں۔
۱۹۳۷ء میں مولانامودودی ؒ کی شادی ۳۴ برس کی عمر میں محمودہ بیگم کے ساتھ ہوئی۔ محمودہ بیگم کاتعلق دہلی کے بخاری خاندان سے تھا۔ دہلی کی جامع مسجد کی امامت اسی خاندان کے پاس ہے۔ علمی اور صاحب ثروت خاندان سے تعلق رکھنے والی محمودہ بیگم نے مولانا مودودیؒ کی زندگی کے مشن میں بھرپور تعاون کیا اور مولانا کے ہمراہ شادی کے فوری بعد ۴ ہجرتیں بھی کیں۔ مولانا کی قید وبند کی صعوبتوں میں صبر کادامن نہ چھوڑا۔ گھر کے معاملات اور بچوں کی تربیت محمودہ بیگم کے سپرد ہی تھیں۔ محمودہ بیگم کا انتقال ۲۰۰۳ء میں ہوا۔
سنجیدہ حلقوں میں مولانامودودیؒ کی شخصیت اور افکار کو درجہ حاصل ہونے لگا۔ اسی عرصہ میں علامہ ڈاکٹر اقبال اور مولانا کی خط وکتابت بذریعہ چوہدری نیاز محمد شروع ہوئی۔ چوہدری نیاز محمد پٹھانکوٹ کے علاقہ میں ایک ادارہ قائم کرنا چاہتے تھے جو تحقیق، تعلیم اور تربیت کے اُمور سرانجام دے ۔ چوہدری نیاز محمدکے ان خیالات کی روشنی میں علامہ محمداقبال نے سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کانام تجویز کیا اور اُنھیں آمادہ کیاکہ وہ پٹھانکوٹ منتقل ہو کراس ادارہ کا انتظام سنبھالیں۔ دعوت ملنے کے تقریباً ۲سال بعد تمام معاملات کے حتمی ہوجانے پر ۱۹۳۸ء میں مولانا مودودی اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پٹھانکوٹ منتقل ہوگئے اور ’’دارالاسلام ‘‘ نامی علمی اور تحقیقی مرکز کی بنیاد ڈالی ۔ ۱۹۳۸ء سے ۱۹۳۹ء تک دارالاسلام قائم رہ سکا۔ اسی عرصے میں مسلمانان ہند کی رہنمائی کے لیے رفقاکی مشاورت سے مسلمانوں کی ایک فکری جماعت کی تشکیل پر سوچنے کاعمل شروع ہوا۔ لہٰذا ۱۹۳۹ء سے ۱۹۴۲ء تک لاہور میں قیام کیا۔ اسلامیہ کالج کے شعبہ دینیات میں ایک سال بلا معاوضہ فرائض سرانجام دیے۔
وہ وقت تھا جب حکومت برطانیہ اہل ہند کو صوبائی خود مختاری دینے پر رضا مندہوگئی تھی اور خطے میں انتخابات کاانعقادبھی ہو رہاتھا۔ کانگریس کی حکومت نے مسلمانوں کو محکوم بنا ڈالا تھا۔ کانگریس اس وقت ’’متحدہ قومیت‘‘ کے فلسفہ کو اُجاگر کررہی تھی اور بہت سے علما کانگریس کے ساتھ تھے مگر مولانامودودیؒ سمیت بعض علما ’’دو قومی نظریے ‘‘ کے حامی تھے۔ اسی عرصے میں مولانا نے مسلمانوں کے علیحدہ قومیت کے تصور سے متعلق اسلامی اور قومی حکومت کا فرق سے متعلق انقلابی و علمی مضامین تحریر کیے جو قیام پاکستان کی تحریک میں ممد و معاون ثابت ہوئے۔ یہ مضامین اب ’’تحریک آزادی ہند اور مسلمان‘‘ کے نام سے دو جلدوں پر مشتمل کتابی شکل میں دستیاب ہیں۔
قیام جماعت اسلامی سے قیام پاکستان تک کی زندگی (۱۹۴۱ء۔ ۱۹۴۷ء):
مولانا مودودیؒ کے خیالات نے ایک جامع اور جی دار تحریک برپا کرنے کی راہ اختیار کرلی۔ ترجمان القرآن میں ’’ایک صالح جماعت کی ضرورت‘‘ کا مضمون بھی شائع ہوا۔ جس کے بعد اُنھوں نے ۲۵۔ ۲۶؍ اگست ۱۹۴۱ء کو منعقد ہ ایک اجتماع میں ایک نئی تنظیم’’جماعت اسلامی ‘‘ کے نام سے قائم کی۔ تنظیم کی تاسیس اسلامیہ پارک لاہور میں مولانا ظفر اقبال کی کوٹھی سے متصل مسجد کے سامنے مولانامودودیؒ کی رہائش گاہ میں ہوئی جس میں پورے ہندوستان سے ۷۵ افراد نے شرکت کی۔ اس عرصے میں آپ لاہور میں مقیم رہے۔ علامہ اقبال کی دعوت پر جنوبی ہند سے شمالی ہند اور پھر شمالی ہند کے اہم مرکز لاہور کو اپنی تحریک کے صدر مقام کے طور پر آپ نے منتخب کیا۔ بعد ازاں ۱۹۴۲ء میں دوسری جنگ عظیم کے بعد پیدا ہونے والے حالات پر یہ فیصلہ کیاگیاکہ بہتر تحقیقی اور تربیتی کام کے لیے مرکز جماعت کو دارالاسلام پٹھانکوٹ منتقل کردیاجائے۔
جماعت اسلامی کے اکابرین پٹھانکوٹ منتقل ہوگئے۔ پہلا کل ہند اجتماع ۱۹۴۵ء میں دارالاسلام پٹھانکوٹ میں منعقد ہوا۔جس میں ۸۰۰؍ افراد نے شرکت کی جبکہ دوسرا اجتماع ۱۹۴۶ء میں الہ آباد میں منعقد ہوا جس میں ۲۰۰۰؍ افراد شریک ہوئے۔ کانگریس اور مسلم لیگ کی سیاسی کشمکش عروج پر پہنچ چکی تھی اور پاکستان وجود پذیر ہو رہاتھا۔ ۱۹۴۷ء کے اوائل میں ۴ جگہوں پر اجتماعات منعقد کیے گئے۔ متوقع مغربی پاکستان کے دارالاسلام، متوقع بھارت کے کارکنان کے لیے مدراس، پٹنہ اور ٹونک میں اجتماعات منعقد ہوئے اور متوقع پاکستان اور متوقع بھارت کے کارکنان کے تحریک اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل پیش کیا گیا۔ اس عرصے میں ’’دعوت اسلامی اور اس کا طریق کار‘‘، ’’اسلام اور جاہلیت‘‘، ’’شہادت حق‘‘ اور ’’تحریک اسلامی کی اخلاقی بنادیں‘‘ جیسی کتابیں تصنیف کی گئیں۔ ۱۹۴۲ء میں معرکۃ الآرا ’’تفہیم القرآن‘‘ کی تصنیف کاآغاز ہوا۔
ضلع گورداس پور تقسیم ہند کے وقت متنازعہ ضلع بن گیا اور ہندوستان نے قبضہ میں لے لیا۔ پٹھانکوٹ اسی ضلع میں واقع تھا۔ ہندوئوں اور سکھوں کے حملوں کے پیش نظر اطراف کے ۸۰۰۰ کے لگ بھگ مسلمانوں نے دارالاسلام میں پناہ لی جنھیں آہستہ آہستہ کرکے اگست ۱۹۴۷ء میں پاکستان روانہ کیا گیا۔ ہجرت پاکستان کے ان آخری لمحات میں ہنگامہ آرائی کے دوران ایک کارکن شہید ہوگیا اور تمام کتب ،ریکارڈ ،مسودات ، یادداشتیں اسی جگہ رہ گئیں اور مولانا مودودیؒ نے تمام پناہ گزینوں کی روانگی کے بعدآخر میں لاہور میں ہجرت کی۔
قیام پاکستان کے ابتدائی دور کی زندگی (۱۹۴۷۔۱۹۵۱ء):
مولانامودودیؒ جماعت اسلامی کے قافلے کے ہمراہ اوآخر اگست ۱۹۴۷ء میں لاہور پہنچے۔ مولانامودودیؒسمیت ابتدا میں جماعت اسلامی کی کارکنان اور اہل خانہ گوالمنڈی، سوہن لال کالج اورا سلامیہ پارک خیمہ بستی رہے اور پھر اچھرہ لاہور میں مکانات کراے پر لے کر مقیم ہوگئے۔ مرکز جماعت اچھرہ کو بنایا گیا تاہم راولپنڈی میں بھی ذیلی مرکز قائم کیا گیا۔ یہ وقت فکری کام سے زیادہ رفاہی کام کاتقاضا کررہاتھا لہٰذاکار کنان جماعت نے مہاجرین کی خدمت لاشوں کی تدفین اور لاہور کی صفائی کے کام کاآغاز کیا۔ مغربی پاکستان کو آٹھ حصوں میں تقسیم کرکے نظم جماعت قائم کیاگیا اور مشرقی پاکستان میں کام کے آغاز کے لیے افراد کاتعین کیاگیا۔
قیام پاکستان کے بعد انگریز کانظام ختم ہوا اور دستور ساز اسمبلی کو مملکت کے نظریات کی روشنی میں دستور سازی کااختیار دیاگیا۔ اس نکتے کے پیش نظر مولانا مودودی ؒنے فکری اور دعوتی جدوجہد کے ساتھ ساتھ ملک کے نظام (دستور وحکومت )کو اسلامی قانون کے مطابق قائم کرنے کی نئی جدوجہد کاآغاز کیا۔ملک کے تعلیمی اداروں میں تقریبات اور ریڈیو پاکستان پر اسلامی نظام سے متعلق بے شمار تقاریر کیں جس ملک کے اسلامی نظام سے متعلق خاکہ بیان کیا ۔ دستور سازاسمبلی کے دستور کی تیاری کا آغاز کیا تو مولانا مودودیؒ نے دستور کے مقاصد کے تعین پر زور دیاکہ دستور کی تیاری سے قبل دستور کے مقاصد واضح ہونے چاہیے۔
مطالبہ اسلامی دستور نے زور پکڑا تو حکومت نے جہاد کشمیر کو حرام قرار دینے اور سرکاری ملازمین کو بغاوت پر اُکسانے کے الزام لگا کرمولانا مودودیؒ کو ملک میں متنازعہ کرنے کی کوشش کی تاکہ جماعت اسلامی کی مطالبہ اسلامی دستور کی تحریک کمزور پڑجائے اور یوں مولانامودودیؒ اور جماعت اسلامی کے خلاف کھل کر الزام تراشیوں کا آغاز اسی دور میں ہوا۔ مولانامودودیؒ اور جماعت اسلامی کے دیگر رفقا کو دو سال (۱۹۴۸ء۔ ۱۹۵۰ء) کے لیے قید کردیا گیا لیکن گرفتاری کے دوران مطالبہ اسلامی دستور کے شدت پکڑنے کی وجہ سے ۱۹۴۹ء میں ’’قرار داد مقاصد ‘‘ منظور کرلی گئی اور ملک میں اسلامی قانون کے تشکیل کی بنیاد ڈال گئی۔ الحمدللہ ۱۹۵۱ء میں پنجاب میں ہونے والے صوبائی انتخابات میں جماعت اسلامی نے پہلی مرتبہ شمولیت اختیار کی اور رائج سیاست سے ہٹ کر دستور ساز اسمبلی کے انتخابات میں شمولیت پر تفصیلی ایجنڈا اور طریقہ کار وضع کرکے عوام کے سامنے پیش کیا۔
۲۰ ماہ کی اس گرفتاری کے دوران مولانامودودیؒ نے ’’تفہیم القرآن ‘‘ ، ’’تفہیمات‘‘،’’رسائل و مسائل‘‘، ’’سود حصہ دوم‘‘ اور ’’مسئلہ ملکیت زمین ‘‘ قلم بند کیے۔ اسی عرصے میں حکومت نے دستوری اصولوں کی رپورٹ شائع کی جسے علما نے ردکردیا۔ رہائی کے فوری بعد مولانامودودی نے ملک گیر دورے کیے اور رپورٹ کی خامیوں کی نشاندہی کی۔ بعد ازاں مولانامودودی سمیت تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے ملک کے ۳۱ علما نے ۱۹۵۱ء میں متفقہ ’’۲۲ نکات‘‘ تیار کرکے حکومت کو پیش کیے کہ ان اصولوں پر مبنی دستور بنایاجائے۔
قیام پاکستان کے بعد کادوسرا دور (۱۹۵۱ء تا ۱۹۵۷ء):
’’اسلامی دستور کی تدوین ‘‘تصنیف ہوئی اور ۲۲ نکات کی روشنی میں مطالبہ نظام اسلامی مہم کاآغاز کیا گیا اور کچھ ہی عرصہ بعد قادیانیوں کے خلاف تحریک شروع ہوگئی۔ مشہور کتاب ’’قادیانی مسئلہ‘‘ اسی عرصے میں تصنیف ہوئی، تاہم انہی تحریکوں کے دوران لاہور میں مارشل لا لگ گیا اور مولانامودودیؒ سمیت جماعت اسلامی کی پوری مجلس شوریٰ کو گرفتار کرلیاگیا۔ ’’قادیانی مسئلہ ‘‘ کی پاداش میں مولانامودودی کو سزائے موت سنا دی گئی تاہم ملکی اور بین الاقوامی ردعمل کے بعد سزا عمر قید میں تبدیل کردی گئی۔ آپ ۱۹۵۳ء تا ۱۹۵۵ء تک گرفتار رہے۔ تفہیم القرآن جلد اول اور دوم بالترتیب ۱۹۵۱ء اور ۱۹۵۴ء میں شائع ہوئی۔
دستور ساز اسمبلی نے ۱۹۵۶ء میں اسلامی اصولوں کی روشنی میں پاکستان کا پہلا دستور مرتب کرلیا ۔ یہ جماعت اسلامی کی ۹ سالہ جدوجہد کا ثمر تھا۔ دستور کی روشنی میں ۱۹۵۸ء میں ملک میں پہلے عام انتخابات کا اعلان کیاگیا جس کی روشنی میں جماعت اسلامی نے اپنا پہلا منشور تیار کیا لیکن ایک سال بعد ہی ۱۹۵۷ء میں جنرل ایوب خان نے ملک میں مارشل لا لگا کر دستور ختم کردیا اور جماعت اسلامی پر پابندی لگادی۔
قیام پاکستان کے بعد تیسرا دور (۱۹۵۷ء تا ۱۹۶۹ء):
۱۹۵۷ء میں جماعت اسلامی کے ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں ملکی حالات اور قیام پاکستان کے بعد حالات میں جماعت اسلامی کے لائحہ عمل پر بحث مباحثہ ہوا اور ’’تحریک اسلامی کاآئندہ لائحہ عمل‘‘ کی صورت میں اجتماع سے کی گئی تقریر کتابی صورت میں مرتب کی گئی اور جماعت اسلامی کے آئندہ لائحہ عمل پر یکسوئی اختیار کی گئی۔
۱۹۵۷ء تا ۱۹۶۲ء جماعت اسلامی پر دیگر جماعتوں کے ہمراہ پابندی رہی۔ جنرل ایوب خان ۱۹۶۲ء کا نیا دستور نافذ کرکے سیاسی جماعتوں کو بحال کردیا مگر جماعت اسلامی نے نئے دستور کی خامیوں کے خلاف مطالبہ اسلامی کی تحریک شروع کردی ۔۱۹۶۳ء میں اسی سلسلہ میں لاہور میں کل پاکستان اجتماع عام منعقد کیا گیا۔ جس میں مولانامودودی پر حملہ کی کوشش ناکام ہوئی اور ایک کارکن اللہ بخش شہید ہوئے۔ جماعت اسلامی کی بحالی دستور اور اسلامی نظام کے مطالبہ کی تحریک کو دبانے کے لیے بالآخر ۱۹۶۴ء میں جماعت اسلامی پر پابندی لگادی گئی اور مولانا مودودیؒ سمیت پوری مجلس شوریٰ کو ۱۰ ماہ تک کے لیے قید کر لیا گیا۔ بحالی کے بعد جماعت اسلامی نے جنرل ایوب خان کے خلاف متحدہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر تحریکوں میں بھرپور حصہ لیا۔
اس عرصے میں تین ماہ تک ایک طویل دورہ ’’سفر ارض القرآن ‘‘ کے عنوان سے حجاز، فلسطین ،مصر ، شام اور اردن کا کیا اور تاریخی مقامات کے نقشہ بنائے۔ اسی طرح تین سال متواتر سعودی عرب کے دورے ہوئے ۔ یہ موقع تھا جب آپ بین الاقوامی سطح پر ایک سکالر کی حیثیت سے معروف ہوچکے تھے۔ ۱۹۶۰ء میں شاہ سعودکی دعوت پر سفر سعودی عرب ہوا۔ شاہ سعود نے مدینہ میں اسلامی یونیورسٹی کے قیام پر مشاورت کی اور مولانا نے تفصیلی خاکہ اجلاس میں پیش کیا۔ ۱۹۶۲ء میں شاہ سعود کی دعوت پر ہی حج کے موقع پر اسلامی ممالک کے جید علما پر مشتمل ’’رابطہ عالم اسلامی‘‘ کا قیام ہوا۔ مولانامودودیؒ نے رابطہ عالم اسلامی کے لیے اصولوں پر مبنی ’’عدل اجتماعی حقیقت اور طریقہ کار‘‘ پر تقریر کی۔ ۱۹۶۳ء میں رابطہ عالم اسلامی اور مدینہ یونیورسٹی کے بورڈز کے اجلاسوں میں شرکت کی جبکہ حاجیوں کے لیے ’’خطبات حرم‘‘ اور نوجوانوں کے اجتماع سے ’’عہد حاضر میں نوجوانوں کے فرائض‘‘ پر تقاریر کیں۔ دوسری جانب ’’تفہیم القرآن‘‘ جلد سوم اور چہارم ۱۹۶۲ء اور ۱۹۶۶ء میں شائع ہوئیں جبکہ سوشلسٹ اور کمیونسٹ تحریک کے مقابلہ میں لٹریچر تیار ہوا ’’اسلام اور جدید معاشی نظریات‘‘، ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ اور ’’ختم نبوت‘‘ اسی عرصے میں تصنیف ہوئیں۔
۱۹۶۷ء میں ’’’عید کے چاند‘‘ پر حکومتی حمایت نہ کرنے کے معاملہ پر دیگر علما کے ساتھ آپ کو تین ماہ کے لیے ایک مرتبہ پھر قید کردیا گیا۔یہ آپ کی چوتھی اور آخری گرفتاری تھی۔ ۱۹۶۸ء میں گردے کے علاج کی غرض سے لندن میں ۵ ماہ قیام کیا۔ اس دوران آپ کے دوآپریشن ہوئے۔
آخری دور (۱۹۶۹ء ۔ ۱۹۷۹ء):
۱۹۶۹ء میں حکومت سعودی عرب کی جانب سے شاہ فیصل ایوارڈ ملا۔
ایوب کے اقتدار کی منتقلی عام انتخابات کی آڑ میں پاکستان میں صوبائی اور لسانی تعصب کے پیش نظر آپ نے اسلام کو مملکت کی یکجہتی قرار دیتے ہوئے ۱۹۷۰ء میں ’’یوم شوکت اسلام‘‘ کا اعلان کیا۔ لاہور میں پاکستان کی تاریخ کاسب سے بڑا جلوس اس کی حمایت میں نکالاگیا تاہم انتخابات کے بعد ملک دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔
۷ جون ۱۹۷۲ء کو شہر آفاق ’’تفہیم القرآن‘‘ ۳۰ سال میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ اسی سال خرابی صحت کی بنا پر آپ نے جماعت اسلامی کی امارت سے معذرت کرلی اور میاں طفیل محمد جماعت اسلامی پاکستان کے امیرمنتخب ہوئے۔
تفسیر قرآن کے بعد سیرت النبی ؐ پر کام کاآغاز کیا گیا۔ تاہم خرابی صحت کے باعث مکی دور کو ہی مرتب کیاگیا اور ’’سیرت سرور عالم‘‘ کی پہلی جلد ۱۹۷۸ء میں شائع ہوئی۔
مئی ۱۹۷۹ء میں علاج کی غرض سے امریکا چلے گئے اور ۲۲ستمبر۱۹۷۹ء کو امریکا میں انتقال ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ امریکا سے پاکستان تک میت کے سفر میں ۶ مقامات پر نماز جنازہ ہوئی، آخری نماز جنازہ لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں ۲۶ستمبرکو ادا کی گئی ۔ علامہ یوسف القرضاوی نے نماز جنازہ پڑھائی۔ مولانا کی تدفین اچھرہ میں گھر کے باغیچے میں ہوئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
سلسلۂ نسب:
’’خواجہ ابو محمدچشتی ‘‘(۳۳۱۔۴۱۱ھ) نامور بزرگ ’’ابو احمدابدال چشتی ‘‘(۲۶۰۔۳۵۵ھ) کے فرزند اور خلیفہ تھے۔ ابو احمدابدال چشتی ، حضرت حسن مثنی بن امام حسن کی اولاد سے تھے اور خواجہ ابو اسحاق شامی کے خلیفہ اعظم تھے۔ انہی سے صوفیائی کا مشہور سلسلہ جاری ہوا جبکہ ’’خواجہ ابو یوسف چشتی ‘‘ (۳۷۵۔ ۴۵۹ھ) کاسلسلہ نسب حضرت امام علی نقی کے واسطے امام حسین تک پہنچتاہے ، یہ خواجہ ابواحمد ابدال کے نواسے اور خواجہ ابو محمد چشتی کے بھانجے تھے۔ جبکہ سید قطب الدین مودودچشتی ’’خواجہ ابو یوسف چشتی کے فرزنداکبر تھے۔‘‘
٭امام حسن …حسن مثنی…(کی اولاد سے ) ابو احمد ابدال چشتی ( بانی سلسلہ چشتیہ ) …کے بیٹے خواجہ ابو محمدچشتی …کے بھانجے ،خواجہ ابو یوسف چشتی …کے بیٹے سیدقطب الدین مودودچشتی جبکہ دوسری جانب امام حسین …امام علی نقی…کی اولاد سے خواجہ ابو یوسف چشتی کے بیٹے سید قطب الدین مودود چشتی تھے۔
سلسلۂ طریقت میں:ابواحمد ابدال چشتی ، خواجہ ابو یوسف چشتی کے دادا پیر اور خواجہ ابو محمدچشتی کے پیر تھے۔ اجمیر کے خواجہ معین الدین چشتی کے شیخ ، خواجہ عثمان ہاردانی تھے جبکہ خواجہ عثمان شریف زندنی تھے جبکہ خواجہ شریف کے پیر سید مودودقطب چشتی تھے۔
٭ابو ابدال چشتی …ابومحمدچشتی …ابو یوسف چشتی …سید قطب الدین مودودچشتی …خواجہ شریف زندنی …خواجہ عثمانی ہاردانی … خواجہ معین الدین چشتی