اس مقالہ میں کوشش کی گئی ہے کہ اقامت دین کے تصورات پر جو تنقیدیں بعض مسلم دانشوروں کی جانب سے ہوئی ہیں ، اْن کا جائزہ لیا جائے۔ یہ تنقیدیں دو طرح کی ہیں۔ ایک تو وہ لوگ ہیں جو سرے سے اس بات کے قائل ہی نہیں ہیں کہ سیاست او ر اجتماعی معاملات میں اسلام بھی کوئی رہنمائی کرتا ہے یا کرتا بھی ہے تو آج کے زمانہ میں اس کی پیروی لاز م ہے۔ عصر حاضر کے سیکولر افکار سے متاثر یہ طبقہ سمجھتا ہے کہ اسلام سمیت تمام مذاہب کا دائرہ، افراد کی ذاتی زندگیوں تک محدود ہے۔ اجتماعی معاملات میں مذہب کی دخل اندازی فتنہ و فساد کا سبب بنتی ہے اور یہ مذہب کا دائرہ کا ر بھی نہیں ہے۔ اسلام کے وہ احکام جن کا تعلق ریاست کے انتظام اور پالیسی سے یا قانون سازی سے ہے، وہ ایک مخصوص دور کی ضرورتوں کے لیے تھے۔ آج اْن تعلیمات سے روشنی تو حاصل کی جاسکتی ہے لیکن اْن کی ہو بہو پیروی نا تو ممکن ہے اور نہ اس کی ضرورت ہے۔ اس مقالہ میں ہم اس اعتراض کو زیر بحث نہیں لائیں گے، یہ اعتراض علیحدہ سے تفصیلی تجزیہ چاہتا ہے۔ اس مکتب فکر کا ذکر میں نے اس لیے کردیا کہ آگے کے مباحث میں اس کا حوالہ آئے گا۔
آج ہمارے پیش نظر مسلمان اہل علم کا وہ طبقہ ہے جو اسلام کی جامعیت اور اجتماعی زندگی سے متعلق اس کی تعلیمات کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ لوگ مانتے ہیں کہ اسلام نے ریاست کا تصور بھی دیا ہے، ریاست کے لیے قوانین بھی تجویز کیے ہیں ، اور یہ احکام، اسلام اور اسلامی شریعت کا جز ہیں لیکن وہ یہ کہتے ہیں کہ ان احکام کا تعلق عام مسلمانوں سے نہیں ہے۔ اس کے مخاطب حکمران ہیں۔ اگرکسی کو حکومت او ر اختیار مل جائے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ قانون سازی اور ریاست کے نظم و انصرام میں اللہ کے احکام کی تعمیل کرے لیکن عام مسلمان، جنہیں حکومت یا اقتدار حاصل نہیں ہے، وہ نہ ان احکام کے مخاطب ہیں اور نہ وہ اس کے مکلف ہیں کہ ان احکام شریعت کی تنفیذ کے لیے کوئی اجتماعی جدوجہد کریں۔ ان کافریضہ بس ذاتی زندگیوں میں اور سماج کے جن امور پر انہیں اختیار حاصل ہے، ان میں خدا کے احکام کی تعمیل تک محدود ہے۔ آج کے اجلاس کے داعیوں نے مجھ سے سناپسس میں خاص طور پر مولانا وحید الدین خان اور جناب جاوید احمد غامدی کے اعتراضات کا جائزہ لینے کے لیے کہا ہے۔ ان دونوں حضرات کے نقطہ نظر کا خلاصہ، میری سمجھ کے مطابق، یہی ہے۔
اقامت دین کیا ہے؟
اس سے پہلے کہ ہم اس نقطہ نظر کا جائزہ لیں ، اس بات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اختصار کے ساتھ اقامت دین کے بارے میں تحریک اسلامی اور مولانا مودودی کے خیالات کا خلاصہ پیش کردیا جائے۔ جماعت اسلامی ہند کے دستور کی دفعہ ۴میں جماعت کا نصب العین اس طرح بیان کیا گیا ہے۔
جماعت اسلامی ہند کا نصب العین اقامت دین ہے، جس کا حقیقی محرک صرف رضائے الٰہی اور فلاح آخرت کا حصول ہے۔
اس نصب العین کی تشریح اس دفعہ میں اس طرح کی گئی ہے:
’’اقامتِ دین میں لفظ دین سے مراد وہ دینِ حق ہے جسے اللہ رب العالمین اپنے تمام انبیا کے ذریعے مختلف زمانوں اور مختلف ملکوں میں بھیجتا رہا ہے اور جسے آخری اور مکمل صورت میں تمام انسانوں کے لیے اپنے آخری نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے نازل فرمایا، اور جو اَب دنیا میں ایک ہی مستند، محفوظ اور عنداللہ مقبول دین ہے اور جس کا نام ’اسلام‘ ہے۔ یہ دین انسان کے ظاہر و باطن اور اْس کی زندگی کے تمام انفرادی و اجتماعی گوشوں کو محیط ہے۔ عقائد، عبادات اور اخلاق سے لے کر معیشت، معاشرت اور سیاست تک انسانی زندگی کا کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں ہے، جو اس دائرے سے خارج ہو۔ یہ دین جس طرح رضائے الٰہی اور فلاحِ آخرت کا ضامن ہے اسی طرح دنیوی مسائل کے موزوں حل کے لیے بہترین نظامِ زندگی بھی ہے، اور انفرادی و اجتماعی زندگی کی صالح اور ترقی پذیر تعمیر صرف اسی کے قیام سے ممکن ہے۔ اس دین کی اقامت کا مطلب یہ ہے کہ کسی تفریق و تقسیم کے بغیر اس پورے دین کی مخلصانہ پیروی کی جائے اور ہر طرف سے یکسو ہوکر کی جائے۔ اور انسانی زندگی کے انفرادی و اجتماعی تمام گوشوں میں اسے اس طرح جاری و نافذ کیا جائے کہ فرد کا اِرتقا، معاشرے کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل سب کچھ اسی دین کے مطابق ہو‘‘۔
دستورِجماعت کی دفعہ پانچ اس نصب العین کے حصول کے لیے اختیار کیے جانے والے طریقہ کار سے بحث کرتی ہے۔ اس کے درج ذیل جملے قابل توجہ ہیں:
’’جماعت اپنے تمام کاموں میں اخلاقی حدود کی پابند ہوگی اور کبھی ایسے ذرائع یا طریقے استعمال نہ کرے گی، جو صداقت و دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فرقہ وارانہ منافرت، طبقاتی کشمکش اور فساد فی الارض رونما ہو۔ جماعت اپنے نصب العین کے حصول کے لیے تعمیری اور پر امن طریقے اختیار کرے گی۔ یعنی وہ تبلیغ و تلقین اور اشاعتِ افکار کے ذریعے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح کرے گی اور اس طرح ملک کی اجتماعی زندگی میں مطلوبہ صالح انقلاب لانے کے لیے رائے عامہ کی تربیت کرے گی۔ ‘‘
ان دفعات میں خاص طور پر درج ذیل باتیں قابل توجہ ہیں:
۱۔ اقامت دین کا مطلب صرف ریاست کی سطح پر اسلامی احکام کانفاذ نہیں ہے بلکہ پوری زندگی میں اسلام کی پیروی ہے۔ اس میں ریاست بھی شامل ہے اور اس کے ساتھ افراد کا اللہ سے تعلق، ان کے جذبات و داعیات، ان کی عبادات، ان کے اخلاق اور سماج سے متعلق تمام امور و معاملات بھی شامل ہیں۔
۲۔ دین کا قیام یا زندگی کے تمام گوشوں میں اسے جاری و نافذ کرنے کا کام زور زبردستی کے ذریعہ انجام نہیں پائے گا بلکہ لوگوں کی ذہن سازی یا رائے عامہ کی تربیت کے ذریعہ انجام پائے گا۔
یہ باتیں جماعت کے دستور سے بھی واضح ہیں اور مولانا مودودی کے افکار میں بھی بڑی وضاحت کے ساتھ ان باتوں کی تکرار ملتی ہے۔ مولانا مودودیؒ کی تحریروں میں درج ذیل قسم کی باتیں ہم کو کثرت سے ملتی ہیں :
حکومت کا نظام اجتماعی زندگی میں بڑی گہری جڑیں رکھتا ہے۔ جب تک اجتماعی زندگی میں تغیرو اقع نہ ہو، کسی مصنوعی تدبیر سے نظام حکومت میں کوئی مستقل تغیر پیدا نہیں کیا جاسکتا۔ عمر ابن عبدالعزیز جیسا فرما نروا جس کی پشت پر تابعین و تبع تابعین کی ایک بڑی جماعت بھی تھی، اس معاملہ میں قطعی ناکام ہوچکا ہے، کیونکہ سوسائٹی بحیثیت مجموعی اس اصلاح کے لیے تیار نہ تھی۔ محمد تغلق اور عالمگیر جیسے طاقتور بادشاہ اپنی شخصی دین داری کے باوجود نظام حکومت میں کوئی تغیر نہ کرسکے۔ یہ اس وقت کاحال ہے جب ایک شخص کی طاقت بہت کچھ کر سکتی تھی۔۔ اسلامی انقلاب بھی صر ف اسی صورت میں برپا ہوسکتا ہے جب کہ ایک عمومی تحریک قرآنی نظریات و تصورات اور محمدی سیرت و کردار کی بنیاد پر اٹھے اور اجتماعی زندگی کی ساری ذ ہنی، اخلاقی، نفسیاتی اور تہذیبی بنیادوں کو طاقت ور جدو جہد سے بدل ڈالے۔
میرا مشورہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ خواہ آپ کو بھوکا رہنا پڑے، گولیاں کھانی پڑیں، مگر صبر کے ساتھ، تحمل کے ساتھ، کھلم کھلا علانیہ طور پر اپنی اصلاحی تحریک کو قانون، ضابطے اور اخلاقی حدود کے اندر چلاتے رہیے۔
کوئی دوسرا نظام مثلاً کمیونزم لوگوں پر زبردستی ٹھونسا جا سکتا ہے… لیکن اسلام اس قسم کا نظام نہیں ہے۔ وہ پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کرنا ضروری سمجھتا ہے، کیونکہ ایمان کے بغیر لوگ خلوص کے ساتھ اس کے بتائے ہوئے راستوں پر نہیں چل سکتے۔ پھر وہ اپنے اصولوں کا فہم اور ان کے برحق ہونے پر اطمینان بھی عوام کے اندر ضروری حد تک اور خواص (خصوصاً کار فرماوں ) میں کافی حد تک پیدا کرنا لازم سمجھتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر اس کے اصول واحکام کی صحیح تنفیذ ممکن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ وہ عوام وخواص کی ذہنیت، انداز فکر اور سیرت وکردار میں بھی اپنے مزاج کے مطابق تبدیلی لانے کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ یہ نہ ہو تو اس کے پاکیزہ اور بلند پایہ اصول واحکام اپنی صحیح روح کے ساتھ نافذ نہیں ہو سکتے۔ یہ جتنی چیزیں میں نے بیان کی ہیں ، اسلامی نظام کو برپا کرنے کے لیے سب کی سب ضروری ہیں اور ان میں سے کوئی چیز بھی جبراً لوگوں کے دل ودماغ میں نہیں ٹھونسی جا سکتی۔
’’اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحہ کے ذریعے سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ یہ بھی دراصل بے صبری اور جلد بازی ہی کی ایک صورت ہے۔ ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک ہی کے ذریعے سے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلائیے۔ بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے۔ لوگوں کے خیالات بدلیے۔ اخلاق سے دلوں کو مسخر کیجیے اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب بھی پیش آئیں اْن کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا وہ ایسا پائیدار اور مستحکم ہوگا، جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کرسکیں گے۔ جلد بازی سے کام لے کر مصنوعی طریقوں سے اگر کوئی انقلاب رونما بھی ہوجائے تو جس راستے سے وہ آئے گا، اْسی راستے سے وہ مٹایا بھی جاسکے گا۔ ‘‘
یہ اقتباسات ہم نے اس لیے نقل کیے تاکہ بحث کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ واضح رہے کہ تحریک اسلامی اور مولانا مودودی کے نزدیک اقامت دین کا مطلب اور اس منزل تک پہنچنے کا راستہ کیا ہے؟ اقامت دین صرف حکومت کی تشکیل یا تبدیلی کا نام نہیں ہے۔ یہ افراد او ر سماج کی ہمہ گیر اصلاح کا نام ہے۔ ریاست کی تشکیل کا ہدف بھی یقیناً اس میں شامل ہے لیکن اقامت دین کا تصور صرف ریاست کی اصلاح تک محدود نہیں ہے اور نہ ہی یہ اقامت دین کا اصل ہدف ہے۔ اقامت دین کا جو تصور ان عبارتوں سے واضح ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کی دعوت لوگوں کے سامنے پیش کی جائے گی۔ لوگ اس کے قائل ہوں گے، اور ان کے ذہن، اخلاق اور رویئے اس دین سے ہم آہنگ ہوں گے تو اس کے نتیجہ میں مثالی اسلامی معاشرہ کے قیام کے لیے راہ ہموار ہوگی اور رائے عامہ کی تربیت کے نتیجہ میں ریاست بھی اسلامی رنگ اختیار کرے گی۔ اقامت دین کا ہدف جب بھی حاصل ہوگا، دعوت دین اور پر امن طریقہ سے رائے عامہ کی تربیت کا نتیجہ ہوگا۔
’’تعبیر کی غلطی‘‘کے اعتراضات
مولانا وحید الدین خان نے تعبیر کی غلطی میں اس تصور اقامت دین پر جو اعتراضات کیے ہیں، ان کا خلاصہ ذیل کے مطابق ہے:
۱۔ سورہ شوریٰ کی آیت میں دین کا مطلب، دین کا وہ حصہ ہے جو تمام انبیا کی دعوت میں مشترک ہے۔ اور یہ حصہ صرف توحید، رسالت اور آخرت یعنی اسلام کے بنیادی عقائد تک محدود ہے۔ اسی کے قیام کا، یعنی اس کی پیروی اور اس کی دعوت کا یہاں حکم دیا گیا ہے۔
۲۔ سورہ صف کی آیت میں (اسی مضمون کی آیت سورہ توبہ میں اور اس سے مماثل آیت سورہ فتح میں بھی آئی ہے) کوئی حکم یا ہدایت نہیں ہے بلکہ صرف خبر ہے۔ یعنی اللہ تعالی اپنے دین کو اپنے نبی کے ذریعہ غالب کرے گا، یہ اللہ کے ارادہ کا اظہار ہے۔ اس میں مومنین کے لیے کوئی حکم نہیں ہے۔
۳۔ دین کا مقصد، بندہ اور خدا کے درمیان تعلق کو مضبوط کرنا ہے۔ یہی ایک مسلمان کا نصب العین ہے۔ ایک مسلمان کو دین پر عمل کرنا چاہیے اور دین کی دعوت پیش کرنی چاہیے۔ حکومت کی تبدیلی کے لیے جدوجہد اس کا کام نہیں ہے۔
تحریک اسلامی کے کئی بزرگوں نے ان اعتراضات کا بہت تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ مولانا وحید الدین خان یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ دین کا تعلق زندگی کے تمام معاملات سے ہے لیکن ان کا اصرار یہ ہے کہ سورہ شوریٰ کی اس آیت میں، جس میں دین کو قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے، دین کا مطلب صرف ایمانیات ہے اور یہی معنی مفسرین نے لیے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ بات صحیح نہیں ہے۔ جن مفسرین نے ایمانیات اور بنیادی باتوں کا ذکر کیا ہے انہوں نے اس کے ساتھ طاعۃ اللہ فی اوامرہ و نواہیہ کو بھی دین کے مطلب میں شامل کیا ہے۔ اس میں دین کے تمام احکام آجاتے ہیں۔ مفسرین کے تفصیلی حوالوں کا یہ مضمون متحمل نہیں ہے۔ مولانا رضی الاسلام ندوی نے اپنے کتابچہ میں قتادہ، علامہ ابن العربی، زمخشری، قرطبی، خازن البغدادی، العمادی، آلوسی، بیضاوی، ابن کثیر، رازی وغیرہم کے اقتباسات نقل کیے ہیں ، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ مفسرین یہاں دین کے معنی کو صرف عقائد و ایمانیات تک محدود رکھتے ہیں۔ اس آیت میں و الذی اوحینا الیک کا فقرہ بھی شامل ہے جس میں خود بخود وہ سارے احکام آجاتے ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئے۔ واقعہ یہ ہے کہ انبیائے اکرام کی تعلیمات صرف عقا ئد اور ایمانیات ہی کے معاملہ میں مشترک نہیں ہیں۔ ان کی دعوت کی روح ایک ہی ہے۔ ان کی شریعتوں کی بنیادی باتیں بھی ایک ہی ہیں۔ اگر شرائع میں کچھ اختلاف ہے تو وہ جزوی اور فروعی باتوں میں ہے۔ اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے اس کی وضاحت مولانا صدر الدین اصلاحی نے اس طرح کی ہے۔
’’ ان حضرات (یعنی مفسرین اکرام ) کے نزدیک دین کی اصولی تعلیمات اور تمام انبیا کے لائے ہوئے دینوں کی مشترک و متفق علیہ ہدایات الہی میں ایک اصولی تعلیم اور متفق علیہ ہدایت یہ بھی تھی کہ لوگوں کو اللہ تعالی کے سارے اوامر کی بجا آوری کرنی ہوگی اور اس کے تمام نواہی سے رکنا پڑے گا۔ اس جامع اصولی ہدایت کا عملی مفہوم کیا ہوگا اور اس کی عملی تعمیل کس شکل میں ہوسکے گی؟ یہ کوئی ایسا سوال نہیں جس کے جواب میں دو باتیں کہی جاسکیں۔ یہ جواب لازماً ایک ہی ہوگا اور وہ یہ کہ امت ان سارے احکام دین و شریعت کی مکمل پیروی کرے گی جو اسے اس کے پیغمبر کے ذریعہ دیے گئے ہوں۔ یعنی مسلمانوں کے لیے اس پوری شریعت کی پیروی اور اقامت اس آیت کی رو سے واجب ہوگی جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ انہیں عطا ہوئی ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس آیت میں دوسرے انبیا کے دینوں کا ذکر اسم موصول عام کے ذریعے کیا گیا ہے لیکن آں حضرت کے دین کا ذکر اسم موصول خاص (الذی) کے ذریعے کیا گیا ہے۔
یہی بات اس آیت سے سمجھ میں آتی ہے اور یہی عام طور پر اس کی تفسیر بھی کی گئی ہے۔ یہاں دین کو اورقیام دین کے حکم کو صرف عقائد و ایمانیات تک محدود کردینے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ یہ کہنا کہ مومن کانصب العین رضائے الہی ہے اور قیام دین کی جدوجہد، دین کا تقاضہ تو ہوسکتا ہے نصب العین نہیں ہوسکتا، محض الفاظ اور طرز بیان کا فرق ہے۔ جماعت کے نصب العین کی جو عبارت ہم نے نقل کی ہے، اس میں رضائے الہی اور فلاح آخرت کے حصول کو ’حقیقی محرک ‘کہا گیا ہے اور اس غرض کے لیے اجتماعی طور پر جس ہدف کی خاطر جدوجہدمطلوب ہے، اْسے نصب العین کہا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اصل محرک اورحتمی ہدف تو رضائے اِلٰہی ہی ہے۔ لیکن اللہ کی رضا کا حصول ایک خاص قسم کی جدوجہد پر منحصر ہے۔ اس جدوجہد کا نشانہ اور ہدف اقامت دین ہی ہونا چاہیے۔ یہ بات بھی صرف دستور جماعت تک محدود نہیں ہے۔ مولانا مودودی اورجماعت کے پورے لٹریچر میں اسی کی تکرار ہے۔ اب اگر آپ رضائے اِلٰہی کے حصول کو نصب العین قراردیں اور اقامت دین کو اس کی ضرورت یا تقاضہ کہیں تو الفاظ کی اس تبدیلی سے کوئی عملی فرق واقع نہیں ہوتا۔ اقامت دین اس صورت میں بھی ایک فریضہ کے طور پر باقی رہتا ہے۔
جاوید غامدی صاحب کے اعتراضات:
جناب جاوید احمدغامدی نے اس تصور پر تفصیل سے تنقید اپنے مضمون’ تاویل کی غلطی‘ میں کی ہے جو ان کی کتاب برہان میں شامل ہے ۔ اسکے علاوہ انھوں نے اپنے کئی ویڈیوز میں بھی اس مسئلہ پر اظہار خیال فرمایا ہے۔ اور اپنے دیگر مضامین اور تفسیر میں بھی اس سے متعلق اشارے فرمائے ہیں۔ ان کی باتوں کا خلاصہ یہ ہے:
۱۔ اقامت کا مطلب قائم کرنا یا نافذ کرنانہیں ہے بلکہ پیروی کرنا اور قائم رکھنا ہے۔ اس لیے سورہ شوریٰ کی آیت میں صرف دین کی پیروی کا حکم ہے۔
۲۔ غلبہ دین کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا۔ اللہ کی سنت ہے کہ جب رسول مبعوث ہوتا ہے تو دین غالب ہوکر رہتا ہے۔ یہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ پوری ہوگئی۔ ا ب عام مسلمان ان آیتوں کے مخاطب نہیں ہیں۔
۳۔ دین کے سیاسی اور اجتماعی احکام کے مخاطب حکمران ہیں۔ وہی اس کے مکلف ہیں۔ عام مسلمانوں کا کام صرف اپنے دائرہ میں دین پر عمل اور اس کی دعوت ہے۔
جاوید غامدی صاحب نے عربی شاعری وغیرہ کے حوالوں سے تفصیلی بحث یہ ثابت کرنے کے لیے کی ہے کہ اقیموا کے معنی قائم کرنا نہیں ہے بلکہ قائم رکھنا ہے۔ ہمار خیال یہ ہے کہ اقامت کا ترجمہ’ قائم کرنا‘ کیا جائے یا’ قائم رہنا‘ یا ’قائم رکھنا‘، اس سے اصل بحث پر کوئی اثرنہیں پڑتا۔ مولانا مودودی نے ترجمہ ’قائم کرنا‘ کیاہے لیکن تفہیم القرآن میں ’قائم رکھنا‘ اِس ترجمہ کی گنجائش کو بھی تسلیم کیا ہے۔ دین قائم کرنا یا دین پر قائم رہنا، دونوں کا مطلب یہی ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں دین کی پیروی کی جائے۔ اس بات کو جاوید غامدی صاحب بھی تسلیم کرتے ہیں اور انہوں نے دین پر قائم رہنے کے معنوں میں قانون و شریعت اور جہاد و قتال وغیرہ سارے احکام شمار کیے ہیں لیکن ان کا کہنا یہ ہے کہ اقیموکا مطلب صرف دین کے اْس حصہ پر عمل تک محدود ہے جس کا تعلق ہماری ذات سے ہے۔ جن امور کا تعلق ہم سے نہیں ہے ان پر عمل کرانا یا انہیں نافذ کرنے کی جدوجہد کرنا اقیموکے معنی میں شامل نہیں ہے۔ یہ نقطہ نظر مفسرین کے بیان کیے ہوئے مطالب سے مختلف ہے۔ مولاناگوہر رحمن اور مولانا رضی الاسلام نے اپنی تحریروں میں اْن مفسرین اکرام کے تفصیلی حوالے دیئے ہیں جن کے نزدیک اقیموا کے معنوں میں دوسروں پر دین کا نفاذ بھی شامل ہے۔ لیکن اگر جاوید صاحب کی یہ بات مان بھی لی جائے کہ اقیموا کے لغوی معنی صرف خود دین پر عمل کرنا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود دین کا کیا مطلب ہے؟ کیا دین کے دائرہ میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر، دعوت، جہاد، اللہ کے دین کی نصرت، شہادت علی الناس وغیر ہ جیسے امور نہیں آتے جن کی قرآن میں بہ تکرار تاکید کی گئی ہے؟ جب یہ سب احکام دین ہیں اور دین کا جز ہیں (اور غامدی صاحب بھی اسے تسلیم کرتے ہیں ) تو اقیموا کے دونوں معنوں میں جو معنی بھی لیے جائیں ’اقامت دین ‘ کے اندر، یہ سب کام خود بخود شامل ہوجاتے ہیں۔ یعنی اگر اقیموا کا مطلب صرف یہ ہے کہ دین کے جو مطالبات میری ذات سے متعلق ہیں، ان کی تکمیل کی جائے تب بھی دعوت، جہاد، نصرت دین و غیرہ کے احکام میری ذات سے متعلق ہی ہیں۔ ان کی تعمیل تو اقامت دین کا تقاضہ ہی ہوگا۔
واقعہ یہ ہے کہ اقامت دین کا حکم کسی ایک آیت تک محدود نہیں ہے۔ قرآن کی پوری اسکیم میں اسے مرکزی ذمہ داری کی حیثیت حاصل ہے۔ قرآن نے اس کام کو کئی اصطلاحوں میں بیان کیا ہے۔ اظہار دین، قیام قسط، قیام عدل، شہادت علی الناس، امر بالمعروف ونہی عن المنکر، دعوت دین، ان سب میں اقامت دین کا مفہوم پوشیدہ ہے۔ ان سب احکام کا تقاضہ یہی ہے کہ دین پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ باقی انسانیت کو دین کی طرف بلانے، دین پر انہیں مطمئن کرنے اور معاشرہ میں اللہ کے احکام کی ترویج و تنفیذ کی ممکنہ کوشش کی جائے۔ مولانا مودودی اور اسلامی تحریکیں انہی باتوں کو اقامت دین قرار دیتی ہیں۔
غامدی صاحب قرآن کے بہت سے احکام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص کردیتے ہیں۔ حالانکہ عام قاعدہ یہ ہے کہ قرآن میں اللہ تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے جو احکامات دیئے ہیں ، وہ تمام مسلمانوں کے لیے ہیں الّا یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ان کی تخصیص کی کوئی واضح دلیل ہو۔ اظہار دین والی آیات کے سلسلہ میں بھی ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ میں اللہ کے وعدہ اور سنت کا ذکر ہے۔ وہ یہاں المشرکون کا ترجمہ عرب کے مشرک اور دین کلہ کا ترجمہ عرب کے ادیان کرتے ہیں۔ اس تخصیص کی بھی کوئی دلیل اس کے سوا نہیں دیتے کہ غلبہ دین، رسول کے سلسلہ میں انبیا کی سنت ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دین کا غلبہ مکمل فرمایا۔ سورہ صف کی اس آیت میں لیظہرہ کے الفاظ دلالت کررہے ہیں کہ یہاں اظہار دین کو نبی کے مشن اور مقصد کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ یہاں صرف اللہ کے ارادہ کا ہی اظہار نہیں ہے بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن اور مقصد بعثت کا بھی اظہار ہے۔ صرف غلبہ دین کے الہی ارادہ کا اظہار مقصود ہوتا تو نبی کی بعثت کے ذکر اور اس کے بعد، اظہار دین کے ذکر کے ساتھ لامِ تعلیل (لیظھرہ) کی ضرورت نہیں تھی۔ بے شک غلبہ دین اللہ ہی کا منصوبہ ہے، لیکن اللہ تعالی اپنے اس منصوبہ کو نبی کے ذریعہ مکمل کرنا چاہتا تھا، اسی لیے اس نے نبی کو مبعوث کیا۔ اسی وجہ سے اسے نبی کا مشن کہا جاتا ہے۔ اگر یہ نبی کا مشن اور اْن کا کام تھا تو نبی کے بعد آپ کی امّت کا کام کیوں نہیں ہوگا؟غامدی صاحب غلبہ دین کی سنت الہی کا تذکرہ اس طرح کرتے ہیں کہ کہیں کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے گویا اللہ تعالی اس سنت کی تکمیل اپنے تکوینی امر کے ذریعہ کرتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں فرقہ جبریہ نے خدا کے تکوینی اور تشریعی احکام میں بڑا مغالطہ کیا تھا۔ زیر بحث فکر میں یہی مغالطہ غلبہ دین کی سنت کے معاملہ میں محسوس ہوتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ان آیتوں میں اِرسال رسول کا ذکر واضح طور پر اس بات کی دلیل ہے کہ اظہار دین کی سنت الہی، نبی کی جدوجہد کے ذریعہ پوری ہوگی۔ نبی اللہ کی رہنمائی میں لیکن اپنے آزاد ارادہ کے ساتھ اظہار دین کی جدوجہد کرتا ہے، فیصلے کرتا ہے، حکمت عملی بناتا ہے، جہا د کرتا ہے، معاہدے کرتا ہے، جہاں ضرورت ہو لڑتا ہے اور جہاں ضرورت ہو صلح کرتا ہے۔ دعوت، ہجرت اور جہاد کے مراحل سے گزرتا ہے۔ سیاسی حکمت عملی بناتا ہے اور اپنی تدبیروں سے، خدا کی مشیت کے تحت اس کی سنت کی تکمیل کرتا ہے۔ اللہ نے نبی کے اسوہ کو تمام مسلمانوں کے لیے نمونہ قرار دیا ہے۔ آپ کا کام اب اس امت کو جاری رکھنا ہے۔ غلبہ دین کے مشن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص کردینے اور امت کو اس سے مستثنی کردینے کے لیے کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے خصوصاً اس لیے کہ دیگر اور نصوص ایسے موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کا غلبہ بعد کے زمانوں میں بھی اللہ تعالی کو مطلوب ہے۔ قرآن مجید میں کہا گیا ہے۔
(دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہو)
( تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور آنھوں نے اچھے عمل کیے ہیں ، اُن سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو وہ اِس سرزمین میں ضروراسی طرح اقتدار عطا فرمائے گا، جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو اس نے عطا فرمایا تھا اور ان کے لیے ان کے دین کو پوری طرح قائم کر دے گا )
حدیث میں ہے:
الاسلام یعلوا ولا یعلی علیہ
(اسلام دنیا میں غالب ہونے کے لیے ایا ہے، سرنگوں ہونے کے لیے نہیں )
امام مسلم نے اپنی صحیح میں کتاب الامارہ کے تحت ایک پورا باب باندھا ہے جس کا عنوان ہے لاتزال طائفۃ من امتی ظاہرین علی الحق لا یضرھم من خالفہم میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا اور اپنے مخالفوں پر غالب آئے گا۔ اسی طرح کا ایک باب امام بخاری نے صحیح بخاری میں کتاب الاعتصام بالکتاب والسنہ میں باندھاہے۔ ان ابواب میں کئی حدیثیں بیان کی گئی ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ اہل حق کا ایک گروہ اسلام کے لیے جدوجہد کرتا رہے گا اور اسے غلبہ ملے گا۔ مثلاصحیح مسلم میں حضرت معاویہؓ سے مروی ایک حدیث بیان کی گئی ہے۔ من یرداللہ بہ خیراً یفقھہ فی الدین ولا تزال عصابۃْ من المسلمین یقاتلون علی الحق ظاھرین علی من ناواھم الی یوم القیامۃ (جس شخص کی اللہ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دیتا ہے اور ہمیشہ ایک جماعت مسلمانوں کی حق پر لڑتی رہے گی اور غالب آئے گی ان پر جو ان سے لڑیں قیامت تک)
عقلی دلائل:
اس مختصر مقالہ میں تفصیلی شرعی دلائل کی گنجائش نہیں ہے۔ ضروری باتیں عرض کردی گئی ہیں۔ جو لوگ اور تفصیل سے مطالعہ کرنا چاہیں وہ اس موضوع پر لکھی گئی بعض اہم کتابوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ اب تک جن کتابوں کے حوالے آچکے ہیں ان کے علاوہ، خصوصاً مولانا عروج قادری کی کتاب‘‘اقامت دین فرض ہے’’اور’’امت مسلمہ کا نصب العین‘‘ نیزمولانا صدر الدین اصلاحی کی کتاب‘‘فریضہ اقامت دین ‘‘ اور مولانا سید جلال الدین عمری کی کتاب ’معروف و منکر‘ وغیرہ کا مطالعہ مفید ہوگا۔
ہم اس موقع پر اس موضوع کو ایک اور پہلو سے یعنی عقل عام sense common کے پہلو سے بھی زیر بحث لانا چاہتے ہیں۔
۱۔ دونوں معترض بزرگ یہ بات مانتے ہیں کہ اسلام نے اجتماعی امور سے متعلق تفصیلی ہدایات دی ہیں۔ اور ان ہدایات کی تعمیل آج کے دور میں بھی ضروری ہے اور یہی انسان کی فلاح اور کامیابی کا خدائی نسخہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ نے اپنے بندوں کے لیے ایک اجتماعی نظام کو پسند کیا ہے تو پھر آج بندوں کے درمیان اس کو متعارف کرانے، اور اسے جاری کرنے کا کیا انتظام ہے؟ ایک زمانہ میں نفاذ کا یہ کام اللہ نے اپنے رسول سے لیا تھا۔ اب اگر آج عام مسلمان اس کے نفاذ کی جدوجہد کے مکلف نہیں ہیں تو پھر یہ کام کس کے ذمہ ہے؟
یہ بات تو عقل عام کے خلاف ہے کہ خدا نے انسانوں کے لیے ایک مکمل نظام زندگی نازل کیا۔ بڑی وضاحت کے ساتھ اس کی تفصیلات بتائیں۔ انہیں محفوظ رکھنے کا بھی انتظام کیا۔ ایک زمانہ میں اپنے رسول کے ذریعہ اس کی تبلیغ و اشاعت اور اس کی تنفیذ کا بھی انتظام کیا، لیکن بعد کے ادوار میں انہیں انسانوں کے درمیان مقبول کرنے اور ا ن کے معاشروں میں جاری و ساری کرنے کا کوئی انتظام ہی نہیں کیا۔ یہ بات توکم از کم آج کے دور میں کوئی معقول اور پڑھا لکھا آدمی نہیں کہہ سکتاکہ کوئی اجتماعی نظام زندگی صرف اس کے تعارف اور پیشکش کے ذریعہ خود بخود نافذ ہوسکتا ہے۔ اگر کوئی اس انتہائی سادہ لوح مفروضہ میں یقین رکھتا ہے تو آج کا سارا علم سیاسیات اور علم سماجیات اس کی تردید و تغلیط کے لیے موجود ہے۔ ہر نظریہ اور نظام اپنے نفاذ کے لیے انسانی جدوجہد چاہتا ہے، اور ایسی جدوجہد چاہتا ہے جو اجتماعی ہو اور مطلوب نظام زندگی کو ہدف بناکر کی جائے۔ اگر صرف نظریہ اور اصولوں کی موجودگی کافی ہوتی تو قرآن کا نزول کافی تھا، رسول کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
انفرادی زندگی سے متعلق اسلامی احکام بھی انسانوں کی فلاح کے لیے ہیں اور یہی معاملہ اجتماعی زندگی سے متعلق احکام کابھی ہے۔ جس طرح شرک اور جھوٹ ایک فرد کے لیے نقصان دہ ہے، اسی طرح سود اور قوم پرستی اور انسانوں کی غیر مشروط خود مختاری، یہ انسانی معاشروں کے لیے نقصاندہ ہے۔ اللہ تعالی کو اگر اپنے بندوں کی فوز و فلاح مقصود ہے، اور صرف افراد کی نہیں بلکہ معاشروں کی اجتماعی فلاح بھی مقصود ہے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے نازل کردہ ان اصولوں کی تنفیذ کا کوئی انتظام ہی نہ کرے جو انسانوں کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ ( ہم یہاں اس بحث کو نہیں چھیڑ رہے ہیں کہ افراد کی اصلاح کا بھی ایک بڑا پہلو سماجی اور معاشرتی اصلاح سے ہے) اللہ تعالی اپنے دین کی ترویج و تنفیذ کا کام انسانوں ہی سے لیتا ہے۔ اسی لیے قرآن میں اللہ نے اپنے بندوں سے دین کی نصرت کا مطالبہ کیا ہے۔ (ائے ایمان والو، اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جمادے گا۔ ) اللہ کے مددگار بننے کا حکم دیا ہے۔
(ائے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کے مددگار بنو)
جس کا مطلب اس کے سوااور کیا ہوسکتا ہے کہ دین کے معاملہ میں منشائے الہی کی تکمیل کے لیے جدوجہد کی جائے۔ اگر منشائے الہی یہ ہے کہ یہ دین زندگی کے تمام انفرادی و اجتماعی معاملوں میں انسانوں کا رہنما بنے، تو اس منشا کی تکمیل کے لیے جدوجہد ہی دین کی نصرت قرار پائے گی۔ اسی جدوجہد کو اسلامی تحریکیں اقامت دین کی جدوجہد کہتی ہیں۔
انسانی معاشروں میں ہمیشہ ایسی قوتیں کارفرما رہی ہیں جو انسانی زندگی کی تنظیم گمراہ کن شیطانی اصولوں اور نظریات کی بنیاد پر کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔ کیا یہ بات اللہ کی مشیت اور اس کی اسکیم کا حصہ ہوسکتی ہے کہ معاشرہ میں کمیونزم کی منظم تحریک جاری و ساری ہو، انتہاپسندانہ سرمایہ داری کے قیام و نفاذ کی منظم جدوجہد ہوتی رہے، نسائیت پرست، ہم جنس پرست اور فسطائی قوم پرست منظم ہوکر اپنے اپنے سیاسی و معاشی تصورات کے نفاذ کے لیے سرگرم رہیں لیکن خدا کا مکمل دین اور انسانی فوز و فلاح کا حقیقی ضامن نظریہ حیات صرف کتابوں میں بند رہے، یا ایسے حکمران کے انتظار میں راہ تکتا رہے جو ا ن احکام کی تنفیذ کو اپنی ذمہ داری سمجھے؟ یہ بات بالکل عقل عام کے خلاف ہے۔ اگر اللہ تعالی انسانوں کے لیے کسی مخصوص نظریہ حیات کو پسند کرتا ہے تو اس کا تقاضہ ہے کہ وہ اس کی تنفیذ کے لیے جدوجہد کی ذمہ داری کسی نہ کسی کے سپرد کرے۔ یہ فطری بات ہے کہ یہ ذمہ داری انہی کے سپر د کی جائے گی جو اس نظریہ کے ماننے والے اور اس کے امین ہیں۔
۲۔ اگر اجتماعی امور میں احکام دین کے نفاذ کی ذمہ داری صرف حکمرانوں کی ہے، تب بھی کیا عام مسلمان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے پابند نہیں ہیں ؟ کیا حکمران اگر اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کررہے ہیں اورخدا کے احکام سے علانیہ انحراف کررہے ہیں تو یہ مسلمانوں کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ اس کی طرف اپنے حکمرانوں کو متوجہ کریں ؟ رسول اللہ نے فرمایا: الدین النصیحہ۔۔ للہ و لکتابہ ولرسولہ ولائمۃ المسلمین و عامتھم (دین خیرخواہی کا نام ہے۔ خیر خواہی اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، مسلمانوں کے اماموں کے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے) ابو سعید خدریؓکہتے ہیں کہ مروان نے عید کے دن منبر نکلوایا اور نماز عید سے پہلے خطبہ شروع کر دیا، تو ایک شخص نے کہا: مروان ! آپ نے سنت کے خلاف کیا، ایک تو آپ نے اس دن منبر نکالا حالانکہ اس دن منبر نہیں نکالا جاتا، پھر آپ نے نماز سے پہلے خطبہ شروع کیا، حالانکہ نماز سے پہلے خطبہ نہیں ہوتا، ابو سعید خدریؓ نے کہا : اس شخص نے تو اپنا وہ حق جو اس پر تھا ادا کر دیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے ’’ تم میں سے جو شخص کوئی بات خلاف شرع دیکھے، تو اگر اسے ہاتھ سے روکنے کی طاقت رکھتا ہو تو اسے ہاتھ سے روک دے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے روکے، اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو اس کو دل سے برا جانے، اور یہ ایمان کا سب سے معمولی درجہ ہے۔ ایک حدیث مبارکہ میں فرمایا گیا : ستکون امراء فتعرفون و تنکرون فمن عرف بری ومن انکر سلم ولکن رضی و تابع قالوا افلا نقاتلھم قال لا ما صلوا یعنی عنقریب ایسے حکمران ہونگے جنہیں تم پہچانتے ہو گے اور ان کا انکار کرو گے، پس جس کسی نے ان (کی حقیقت) پہچان لی وہ بری ہوگا، جس کسی نے برملا ان کا انکار کیا وہ تو سلامتی کے راستے پر ہوگا سوائے اس کے جو ان پر راضی ہوگیا اور ان کی اطاعت کرنے لگا (یعنی نہ وہ بری ہے اور نہ سلامتی کے راستے پر)۔ صحابہ نے عرض کی اے اللہ کے رسول کیاایسے امراء کے خلاف ہمیں قتال نہیں کرلینا چاہئے؟ آپ نے فرمایا جب تک وہ نماز ادا کرتے رہیں ایسا مت کرنا۔ امام مسلم نے اپنی صحیح میں جہاں اس حدیث کا باب باندھا ہے، اس باب کا موضوع ہی رکھا ہے۔ باب وجوب الانکار علی الامراء فیما یخالف الشرع وترک قتالھم ما صلو و نحو ذالک (یعنی اس بات کا باب کہ اگر امراء شریعت کی خلاف ورزی کریں تو ان کی نکیر واجب ہے ) یعنی جو حکمران خدا کے احکام کی کھلی نافرمانی کریں ، ان کے خلاف خروج اور قتال کے لیے تو کچھ اور شرائط ہیں ، لیکن ان کی نکیر اور ان کو معروف کی تلقین اور اسلام کے نفاذ کے لیے ان کو آمادہ کرنا، یہ کام تو ہر حال میں اہل ایمان کو انجام دینا ہے۔
۳۔ آج کے زمانہ میں ملکوں کے نظام اور قوانین کے لیے صرف حکمران ذمہ دار نہیں ہوتے، عوام بھی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ دنیا کے بیشتر ملکوں میں تو جمہوری نظام ہیں۔ جمہوری نظام کی تو تعریف ہی یہی ہے کہ وہاں قانونی طور پر عوام ہی اصل حکمران ہوتے ہیں۔ حکومت کے کام انہی کے منتخب نمائندے انجام دیتے ہیں۔ ملک کی قانون سازی اور پالیسی سازی عوامی رجحانات کے مطابق ہی ہوتی ہے۔ اس لیے اب تو یہ بحث بالکل غیر متعلق ہے کہ حکمرانی سے متعلق احکامِ دین کے مخاطب صرف حکمران ہیں ، عوام نہیں ہیں۔ اب یہ بات ساری دنیا میں مسلمہ ہے کہ جمہوری حکومتوں میں جو پالیسیاں بھی بنتی ہیں ، ان کے لیے عوام پوری طرح ذمہ دار ہیں۔ عوام کے سامنے جواب دہ اور عوام کے ووٹ سے منتخب حکومت، اگر خدا کے احکام کی کھلی خلاف ورزی کرتی ہے اور ومن لم یحکم بما انزل اللہ کی تصویر بنی رہتی ہے تو اس معاشرہ میں رہنے والے مسلمان کیسے اس کی ذمہ داری سے بری ہوسکتے ہیں ؟براء ت کی ایک ہی شکل ممکن ہے اور وہ یہ کہ وہ معاشرہ کو اسلام کے نفاذ کے لیے تیار کرنے کی بساط بھر کوشش کرتے رہیں۔ بلاشبہ وہ کسی ایسے کام کے مکلف نہیں ہیں جو اْن کی طاقت اور استعدادسے باہر ہو لیکن جو کچھ ان کے بس میں ہے، اْ س جدوجہد کی ذمہ داری سے وہ کیسے بری ہوسکتے ہیں ؟ اسلام میں اجتماعی ذمہ داری کا تصور بھی پایا جاتاہے۔ ہم کو ایسے واضح نصوص بھی ملتے ہیں جن میں سماج کی اجتماعی خرابیوں کے لیے سماج کے ہر فرد کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔
(اور بچو اس فتنہ سے جس کی شامت مخصوص طور پر انہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔)
جاوید غامدی صاحب خود اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’دنیا میں خدا کا قانون یہی ہے کہ بعض اوقات ایک گروہ کے جرائم کی سزا پوری قوم کو بھگتنا پڑتی ہے۔ یہ اُس سے متنبہ فرمایا ہے کہ اپنے رویے کی اصلاح کر لو، ورنہ اندیشہ ہے کہ اس طرح کے کسی فتنے میں مبتلا ہو جاو گے جو پوری جماعت، بلکہ آیندہ نسلوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا کرتا ہے۔ اللہ کے دین میں اِسی بنا پر لوگوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ دوسروں کو بھی بھلائی کی تلقین کریں اور برائی سے روکیں ‘‘۔
حدیث میں آیا ہے:یعنی اگر کسی قوم میں گناہ کے کام کیے جاتے ہوں اور ان کاموں کو روکنے کی کوئی کوشش نہ کی جائے تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو عذاب میں گرفتار کرلے۔
۴۔ کسی نظریہ پر پختہ ایمان کا لازمی تقاضہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے نفاذ کے لیے جدوجہد کی جائے۔ یہی انسانی فطرت ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اسلام کے اجتماعی احکام پر عمل ضروری نہیں ہے( اس مکتب فکر کا ہم نے ابتدا میں ذکر کیا تھا) تو اس کا معاملہ مختلف ہے۔ لیکن اگر کسی کا یہ ایمان ہے کہ اسلام سیاست سمیت زندگی کے ہر شعبہ میں رہنمائی کرتا ہے، اور یہ رہنمائی ہی انسانوں کی فو ز و فلاح کی واحد ضامن ہے، تو اس کے بعد، اس نظریہ کے نفاذ کا خواب دیکھنا اور اس کے لیے ممکنہ جدوجہد کرنا خود بخود اس کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ زندگی کے مشن اور نصب العین کا گہرا تعلق اعتقاد System Belief سے ہوتا ہے۔ ہر مشن اور نصب العین کسی اعتقاد کی پیداوار ہوتا ہے اور ہر پختہ عقیدہ کسی نہ کسی نصب العین کو لازماً جنم دیتا ہے۔ اعتقاد System Beliefاور زندگی کے مشن Mission Lifeکے درمیان یہ گہرا تعلق آج علم انتظام، سماجی نفسیات، سماجیات وغیرہ علوم کا مسلمہ اصول ہے۔ ان سب علوم میں یہ بحثیں موجود ہیں کہ آدمی اپنے بارے میں اور دیگر انسانوں اور کائنات کے بارے میں جو نقطہ نظر رکھتا ہے System Beliefاور جن قدروں اور اصولو ں کو اپنے لیے اور دیگر انسانوں کے لیے درست اور صحیح سمجھتا ہے System Valueاسی سے اس کی زندگی کا مشن تشکیل پاتا ہے۔ کسی بھی میدان میں تبدیلی کی ضرورت پر پختہ یقین آدمی کو اس تبدیلی کی تحریک چلانے پر مجبور کرتا ہے۔ اس لیے، اقامت دین کا نصب العین اس عقیدہ کا لازمی نتیجہ ہے کہ اسلام اللہ کا دین ہے اور اسی میں انسانوں کی نجات ہے۔ عقلی اعتبار سے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ آدمی کا عقیدہ تو اسلام میں ہو لیکن اسلام کا قیام اس کا نصب العین نہ بنے۔
اگر آج میں کینسر کی ایک نئی دوا ایجاد کرلو ں او ر میرے اندر یہ مستحکم یقین پیدا ہوجائے کہ اس دوا سے کینسر کا ہر مریض لازماً شفا پالے گا اور یہ کہ اس انمول دوا کی ترویج اس وقت عالم انسانیت کی ایک بڑی ضرورت ہے تو اس عقیدہ کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ اس دوا کی ترویج، اس کا قبول عام اور ملک کے نظام صحت میں اس کی قبولیت میرا نصب العین بن جائے گا۔ اگر اس دوا اور اس پر کامل یقین کے باوجود میں اسے لے کر گھر میں بیٹھا رہوں تو میری یہ خاموشی انسانیت کے خلاف ہوگی اور میرے ضمیر بلکہ میری انسانی فطرت کے خلاف ہوگی۔ کمیونزم اور فلاں فلاں ازم کے علم بردار اپنے اپنے نظریات کے قیام و نفاذ کے لیے اس بات کے محتاج نہیں ہیں کہ ان کی کتابوں کی عبارتوں کی لغات کے ذریعہ تشریح کرکے بتایا جائے کہ اس کا قیام و نفاذ تمہاری ذمہ داری ہے۔ ان اصولوں کی صحت پر یقین اور اْن کے انسانوں کے لیے مفید اور موزوں ہونے پر ایمان، یہ بذات خوداس بات کے لیے کافی ہے کہ وہ ان کے نفاذ کو اپنی زندگی کا نصب العین قرار دے دیں۔
یقیناً اسلام نے یہ اصول دیا ہے کہ نفاذکا یہ کام زور زبردستی کے ساتھ نہیں ہوگا۔ میں کینسر کی دوا بھی کسی مریض کو بندوق کی نوک پر نہیں پلائوں گا۔ ڈاکٹروں کو بھی اس کی اجازت نہیں ہوتی۔ میں دوسروں کا یہ حق بھی تسلیم کروں گا کہ اگر کوئی اس دوا کو موثر نہیں سمجھتا ہے یا نقصاندہ سمجھتا ہے تو وہ بھی اپنی بات لوگوں کے سامنے پیش کرے لیکن میں آخری کوشش اس مقصد کے لیے ضرور کروں گا کہ لوگ اس کی افادیت کے قائل ہوجائیں ، اس کے حق میں رائے عامہ بن جائے اور اس کی تنفیذ ممکن ہوجائے۔ یہی کام مجھے اسلام کے سلسلہ میں بھی کرنا ہے۔
٭…٭
مصنف: سید سعادت اللہ حسینی ،امیر جماعت اسلامی ہند
زبان: اردو
زبان: اردو
