کیا واقعی نماز ہمیں گناہوں سے بچاتی ہے؟

نماز کو بھی ہم ایک خاص طریقے سے اُٹھنے بٹھنے; کا عمل سمجھ لاک ہے کہ جس سے خدا خوش ہوتا ہے اور انسان برائورں سے بچ جاتا ہے، لکنل فی زمانہ نماز ہماری زندگودں مںا کوئی تغر نہں لاتی۔ایسا کودں ہے؟ اس سے متعلق سدا مودودیؒ لکھتے ہںخ:
’’عبادت دراصل بندگی کو کہتے ہں اور جب آپ خدا کے بندے ہی پدٓا ہوئے ہںل تو آپ کسی وقت کسی حال مں بھی اس کی بندگی سے آزاد نہںد ہوسکتے۔ جس طرح آپ یہ نہںک کہہ سکتے کہ مںھ اتنے گھنٹے یا اتنے منٹو ں کے لےا خدا کا بندہ ہوں اور باقی وقت مںے اس کا بندہ نہںب، اسی طرح آپ یہ بھی نہں کہہ سکتے کہ مں اتنا وقت خدا کی عبادت مں صَرف کروں گا اور باقی اوقات مںی مجھے آزادی ہے کہ جو چاہوں کروں۔ آپ تو خدا کے پداائشی غلام ہں ۔ اس نے آپ کو بندگی کے لےہ ہی پد ا کاں ہے۔ لہٰذا آپ کی ساری زندگی اس کی عبادت مںی صَرف ہونی چاہےو اور کبھی ایک لمحے کے لےہ بھی آپ کو اس کی عبادت سے غافل نہںہ ہونا چاہےٓ۔
ذکر الٰہی کا مطلب یہ نہں ہے کہ زبان پر اللہ اللہ جا ری ہو، بلکہ اصل ذکرِ الٰہی یہ ہے کے جھگڑوں اور بکھڑہوں مںی پھنس کر ہی تمھں ہر وقت خدا یاد رہے۔ جو چزمیں خدا سے غافل کرنے والی ہں ان مں مشغول ہو اور پھر خدا سے غافل نہ ہو۔ دنا کی زندگی مں جہاں خدائی قانون کو توڑنے کے بے شمار مواقع بڑے بڑے فائدوں کے لالچ اور نقصان کا خوف لےف ہوئے آتے ہںں وہا ں خدا کو یا د کرو اور اس کے قانون کی پرووی پر قا ئم رہو۔ یہ ہے اصل یاد ِخدا۔

یہ بھی مںی آپ کو بتا چکا ہوں کہ عبادت کے معنی دنال کے کام کاج سے الگ ہوکر ایک کونے مں بٹھھ جانے اور اللہ اللہ کرنے کے نہں ہںد، بلکہ دراصل عبادت کا مطلب یہ ہے کہ اس دناں مں آپ جو کچھ بھی کریں خدا کے قانون کے مطابق کریں۔ آپ کا سونا اور جاگنا، آپ کا کھانا اور پناا، آپ کا چلنا اور پھرنا، غرض سب کچھ خدا کے قانون کی پا بندی مںل ہو۔ آپ جب اپنے گھر مں بودی بچوں، بھائی بہنوں اور عزیز رشتہ دارو ں کے پاس ہوں تو ان کے ساتھ اس طرح پشا آئںگ جس طرح خدا نے حکم دیا ہے۔ جب اپنے دوستوں مںھ ہنسںا اور بولںپ، اس وقت بھی آپ کو خایل رہے کہ ہم خدا کی بندگی سے آزاد نہں ہں ۔ جب آپ روزی کما نے کے لےش نکلںت اور لوگوں سے لنٓ دین کریں اس وقت بھی ایک ایک بات اور ایک ایک کام مںھ خدا کے احکا م کا خا ل رکھںد اور کبھی اس حد سے نہ بڑھں جو خدا نے مقرر کردی ہے۔ جب آپ رات کے اندھر ے مںل ہوں اور اور کوئی گناہ اس طرح کر سکتے ہوں کہ دنائ مںع کوئی آپ کو دیکھنے والا نہ ہو، اس وقت بھی آپ کو یاد رہے کہ خدا آپ کو دیکھ رہا ہے اور ڈرنے کے لائق وہ ہے نہ کہ لوگ۔ جب آپ جنگل مںے تنہا جا رہے ہوں اور وہاں کوئی جرم اس طرح کر سکتے ہوں کہ کسی پولسک منا اور کسی گواہ کا کھٹکا نہ ہو، اس وقت بھی آپ خدا کو یا د کر کے ڈر جا ئںر اور جرم سے باز رہںا۔ جب آپ جھوٹ اور بے ایمانی اور ظلم سے بہت فائدہ حاصل کر سکتے ہوں اور کوئی آپ کو روکنے والا نہ ہو، اس وقت بھی آپ خدا سے ڈریں کہ خدا اس سے ناراض ہو گا اور جب سچائی اورایمان داری مںئ سراسر آپ کو نقصان پہنچ رہا ہو، اس وقت بھی آپ نقصان اُٹھا نا قبول کرلںا، صرف اس لےس کہ خدا اس سے خوش ہوگا۔ پس دناس کو چھوڑ کر کونوں اور گوشوں مںر جا بٹھنا اور تسبح ہلانا عبادت نہں ہے، بلکہ دنا کے دھندو ں مں پھنس کر خدا کے قانون کی پابندی کرنا عبادت ہے۔ ذکر الٰہی کا مطلب یہ نہںو ہے کہ زبان پر اللہ اللہ جا ری ہو، بلکہ اصل ذکرِ الٰہی یہ ہے کے جھگڑوں اور بکھڑہوں مںس پھنس کر ہی تمھںں ہر وقت خدا یاد رہے۔ جو چز یں خدا سے غافل کرنے والی ہںل ان مںت مشغول ہو اور پھر خدا سے غافل نہ ہو۔ دناا کی زندگی مںو جہاں خدائی قانون کو توڑنے کے بے شمار مواقع بڑے بڑے فائدوں کے لالچ اور نقصان کا خوف لے ہوئے آتے ہںم وہا ں خدا کو یا د کرو اور اس کے قانون کی پردوی پر قا ئم رہو۔ یہ ہے اصل یاد ِخدا۔ اس کا نام ہے ذکرِ الٰہی۔
جو شخص دن مں پانچ مرتبہ اذان کی آواز سنتا ہو اور سمجھتا ہو کہ کیھن بڑی چزا کی شہادت دی جا رہی ہے اور کسےے زبردست بادشاہ کے حضور مں بلایا جا رہا ہے اور جو شخص ہر مرتبہ اس پکار کو سن کے اپنے سارے کام کاج چھوڑدے اور اس ذاتِ پاک کی طرف دوڑے جسے وہ اپنا اور تما م کائنا ت کا مالک جانتا ہے اور جو شخص ہر نماز سے پہلے اپنے جسم اور دل کو وضو سے پاک کرے اور جو شخص کئی کئی با ر نماز مں وہ ساری باتںں سمجھ بوجھ کر ادا کرے جو نماز مںذ پڑھی جاتی ہں ، کواں کر ممکن ہے کہ اس کے دل مںپ خدا کا خوف پدسا نہ ہو؟ اس کو خدا کے احکام کی خلا ف ورزی کرتے ہوئے شرم نہ آئے؟ اس کی روح گناہوں اور بدکاریوں کے ساڑہ دھبے لے کر با ر بار خدا کے سامنے ہوتے ہوئے لرز نہ اُٹھے؟ کس طرح ممکن ہے کہ آدمی نماز مں خدا کی بندگی کا اقرار ،اس کی اطاعت کا اقرار ،اس کے مالک یوم الدین ہونے کا اقرار کر کے جب اپنے کام کاج کی طرف واپس آئے تو جھوٹ بولے؟ بے ایمانی کرے؟ لوگوں کے حق مارے؟ رشوت کھائے اور کھلائے؟ سود کھائے اور کھلائے، خدا کے بندوں کو آزار پہنچائے؟ فحش اور بے حاطئی اور بدکاری کرے؟ اور پھر ان سب اعمال کا بو جھ لاد کر دوبا رہ خدا کے سامنے حاضر ہونے اور اُنھی سب باتوں کا اقرار کرنے کی جرأت کرسکے؟ ہاں! یہ کسےپ ممکن ہے کہ تم جان بوجھ کر خدا سے چھتسم مرتبہ اقرار کرو کہ ہم تردی ہی بندگی کرتے ہںھ اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہںک اور پھر خدا کے سوا دوسروں کے آگے مدد کے لے؟ ہاتھ پھلاکئو؟ ایک بار تم اقرار کر کے خلاف ورزی کرو گے تو دوسری مرتبہ خدا کے دربار مںے جاتے ہوئے تمھارا ضمرر ملامت کرے گا اور شرمندگی پدرا ہوگی۔ دوسری بار خلا ف ورزی کروگے تو اور زیادہ شرم آئے گی اور زیا دہ دل اندر سے لعنت بھجے گا۔ تمام عمر یہ کسےب ہو سکتا ہے کہ روزانہ پانچ پانچ مرتبہ نماز پڑھو اور پھر بھی تمھارے اعمال درست نہ ہوں؟ تمھارے اخلا ق کی اصلاح نہ ہو؟ اور تمھاری زندگی کی کا یا نہ پلٹے؟‘‘

اسی موضوع سے متعلق اسلام کے بنیادی عقائد پر مولانا مودودیؒ نے ”دینیات“ کتاب تحریر کی، یہ کتاب 70 سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے۔ اگر آپ اس کتاب کو پڑھنا چاہتے ہیں یہاں پر کلک کریں

حوالہ:ابوالا علیٰ، مودودی،سید، خطبات، باب سوم (نماز)،اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ص:102:102